Saturday 11 February 2017

بیٹی، اک ڈھال 🌹


اُس کی شادی کو دس سال ہو رہے تھے۔۔۔ قدرت نے اُسے بیٹیوں جیسی رحمت سے نوازا تھا۔۔
ہر مرتبہ اُسے خواہش ہوتی کہ بیٹا پیدا ہو۔۔ لیکن یکے بعد دیگرے پھول جیسی چھ بیٹیاں اس کے آنگن میں اُتر آئی تھیں۔۔۔
بیٹا نہ ہونے کے سبب خاندان اور گھر والوں کی تلخ باتیں بھی اُسے سہنی پڑ جاتیں۔۔۔
اس بار پھر اُس کی بیوی کے ہاں ولادت متوقع تھی۔۔۔ لیکن وہ دل میں ہی ڈر رہا تھا کہ اس بار پھر بیٹی پیدا نہ ہو جائے۔۔۔
"اب کے بار بھی اگر لڑکی پیدا ہوئی تو بیوی کو طلاق دے کر فارغ کر دینا ۔۔۔۔"
اُس کی آپا نے اسے دوٹوک انداز میں کہہ ڈالا۔۔۔
"بیٹی کی پیدائش میں بھلا میری بیوی کا کیا قصور ۔۔؟؟"
وہ اپنے ہی ذہن میں سوچتا۔۔۔ پھر سر جھٹک کر فیصلوں کو حالات کے دھارے پر چھوڑ دیتا۔۔۔
لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا۔۔۔ شیطان کے کاری وار اُس کے دل و دماغ پر اثر کرتے گئے یہاں تک اُس نے پکا ارادہ کر لیا کہ اگر اب کے بار بھی لڑکی پیدا ہوئی تو وہ اپنی بیوی کو طلاق دے دے گا۔!
ایک رات وہ سویا تو کیا دیکھتا ہے کہ قیامت برپا ہو چکی ہے، ہر طرف افراتفری کا ماحول ہے.
میزانِ عمل میں اس کے گناہوں کا بوجھ اتنا ہے کہ زندگی بھر کی نیکیاں بھی کام نہیں آ سکیں اور ان گناہوں کی پاداش میں اس پر جہنم واجب ہو چکی ہے..
فرشتے اسے زنجیروں میں جکڑ کر جہنم کی طرف گھسیٹتے ہوئے جا رہے ہیں۔۔ اِس کی چیخ و پکار آہ و بکا کا کچھ بھی اثر نہیں ہو رہا۔۔۔ اچانک کیا دیکھتا ہے کہ جہنم کے دروازے پر اِس کی ایک بیٹی کھڑی ہے.. وہ باپ کو دیکھ کر آگے بڑھتی ہے اور فرشتوں کو روک دیتی ہے۔۔۔
فرشتے اِس کو لے کر دوسرے دروازے کی طرف چل پڑتے ہیں۔۔۔ وہاں پہنچ کر دیکھتا ہے کہ اس کی دوسری بیٹی کھڑی ہے اور فرشتوں کو آگے نہیں جانے دے رہی۔۔
فرشتے وہاں سے اِسے لے کر تیسرے دروازے پر جاتے ہیں۔۔ وہاں اس کی تیسری بیٹی اپنے باپ کیلئے جہنم سے آڑ بن جاتی ہے۔۔
اس طرح چوتھے۔۔۔ پانچویں اور پھر چھٹے دروازے تک فرشتے اس کو لے کر جاتے ہیں مگر ہر دروازے پر اس کی بیٹیاں اس کا دفاع کرتی ہیں اور جہنم میں جانے سے روک دیتی ہیں۔
اب ساتواں دروازہ باقی تھا، فرشتے اِس کو زنجیروں میں جکڑے ساتویں دروازے کی طرف چل پڑتے ہیں۔۔
اب اس پر شدید گھبراہٹ طاری ہونے لگی کہ اس دروازے پر میرے لئے کون رکاوٹ بنے گا۔۔؟؟؟
اسی گھبراہٹ اور خوف کے عالم میں اچانک ہی اُس کی آنکھ کُھل گئی، وہ پسینے میں شرابور تھا اور جسم پر کپکپی طاری تھی، اسے احساس ہونے لگا کہ شیطان کے بہکاوے میں آ کر انتہائی غلط فیصلہ کر بیٹھا تھا.
اسی حالت میں اُس نے اللہ کے حضور ہاتھ بلند کئے۔۔۔ آنسو اُس کے رخساروں پر بہہ رہے تھے اور لرزتے ہونٹوں سے دعا نکلی...
"اے اللہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے ساتویں بیٹی عطا فرما ۔۔۔۔۔۔"

آج کے بیدین اور فرسودہ افکار نے سوچ کو اس حد تک گِرا دیا کہ بیٹیوں کو رحمت کے بجائے دورِ جاہلیت کی طرح اور بے عزتی کا سبب خیال کیا جانے لگا ہے، مسلمان معاشرے میں ﺟﻦ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﺎ ﻗﻀﺎ ﻭ ﻗﺪﺭ ﭘﺮ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﮨﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﻟﮍﮐﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﭘﯿﺪﺍﺋﺶ ﭘﺮ ﺭﻧﺠﯿﺪﮦ ﺧﺎﻃﺮ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﺧﻮﺵ ﮨﻮﻧﺎ ﭼﺎہئے کیونکہ بیٹیاں رحمتِ خداوندی کا حصہ اور جہنم سے بچاؤ کا ذریعہ ہیں، ایمان کی کمزوری کے باعث جن لوگوں کا ﯾﮧ ﺗﺼﻮﺭ ﺑﻦ ﭼﮑﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻟﮍﮐﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﭘﯿﺪﺍﺋﺶ ﮐﺎ ﺳﺒﺐ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯾﺎﮞ ﮨﯿﮟ ﯾﮧ ﺳﺮﺍ ﺳﺮ ﻏﻠﻂ ﮨﮯ۔۔۔ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﻮﯾﻮﮞ ﮐﺎ ﯾﺎ ﺧﻮﺩ ﺍﻥ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﻋﻤﻞ ﺩﺧﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﻣﯿﺎﮞ ﺑﯿﻮﯼ ﺗﻮ ﺻﺮﻑ ﺍﯾﮏ ﺫﺭﯾﻌﮧ ﮨﯿﮟ۔۔
اولاد کی نعمت سے نوازنے والا ﺻﺮﻑ ﺍﻟﻠﮧ ﻭﺣﺪﮦ ﻻﺷﺮﯾﮏ ﮨﮯ...
ارشاد باری تعالٰی ہے:
"ﻭہ جو چاہے پیدا کرتا ہے۔۔۔ جس کو چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے دیتا ہے یا (جس کو چاہتا ہے) بیٹے اور بیٹیاں ملا جُلا کر دیتا ہے اور جسے چاہے بانجھ کر دیتا ہے."
(سورۃ الشورٰی: 49-50)

رسول اکرم (ص) نے فرمایا:
"جس شخص کو بیٹیوں کے ذریعے آزمائش میں ڈالا گیا اور اس نے احسن طریقے سے ان کی پرورش کی تو اس کے لیے یہ بچیاں جہنم سے بچاؤ کے لئے ڈھال بن جائیں گی."
(بخاری، کتاب الزکاة، حدیث:1418)

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...