Showing posts with label شاعری. Show all posts
Showing posts with label شاعری. Show all posts

Saturday, 18 February 2017

دس روپے کا سوال ہے بابا

اپنی بیٹی کی تھام کر انگلی
چیز لینے میں گھر سے نکلا تھا
ایک بچی نے راستہ روکا
وہ جو بچی تھی پانچ سالوں کی
کھوئی سرخی تھی اس کے گالوں کی
کالا چہرہ تو بال بکھرے تھے
اُس کے چہرے پہ سال بکھرے تھے
سُوکھی سُوکھی کلائی پر اُس نے
ایک چُوڑی کہیں سے چھوٹی سی
جانے کیسے پھنسا کے پہنی تھی
پاؤں ننگے قمیص میلی تھی
لٹکی گردن سے ایک تھیلی تھی
خالی خُولی خلا سی آنکھیں تھیں
جیسے کالی بلا سی آنکھیں تھیں
جیسے چابی بھرا کھلونا ہو
جیسے بوڑھا سا کوئی بونا ہو
اس نے کھولا ادا سے مٹھی کو
ننھی منی سی اُس ہتھیلی کو
میں نے دیکھا بڑی حقارت سے
ننھے ہونٹوں کی تھر تھراہٹ پہ
اِک مشینی صدا کے جھٹکے تھے
"" دس روپے کا سوال ہے بابا""
میں نے نفرت سے دیکھ کر اُس کو
ہاتھ جھٹکا کہ جان چھوڑے وہ
وہ ہتھیلی وہیں پہ اٹکی تھی
وہ صدا بھی تھمی نہ اک پل کو
میری عادت ہے پیشے والوں کو
اک روپیہ کبھی نہیں دیتا
میں بھی ضِدی تھا وہ بھی ضِدی تھی
میں نے دیکھا کہ اس کے چہرے پہ
مرتے پچپن کی ہلکی لالی تھی
اس کے جُملے کے سارے لفظوں میں
لفظ ""بابا "" ذرا سا بھاری تھا
دس روپے تو وہ تیز کہتی تھی
لفظ ""بابا "" پہ ہلکی اٹکن تھی
""دس روپے کا سوال ہے بابا ""
اُس کے بابا نے اس کو سِکھلایا
اُس کی اماں نے اس کو رٹوایا
دس روپے تو وہ تیز کہتی تھی
لفظ ""بابا "" پہ کیسی اٹکن تھی
خالی خولی خلا سی آنکھوں نے
میرے چہرے کو غور سے دیکھا
اس کے قاتل سپاٹ چہرے پہ
ایک قاتل سی مسکراہٹ تھی
اس کے ہاتھوں کی انگلیاں مڑ کر
پھر سے مٹھی کی شکل میں آئیں
میں نے دیکھا تو اس کے ماتھے پہ
اک ""عبارت "" رواں سی لکھی تھی
""دس روپے کو سنبھال تُو بابا ""
ساری قبروں پہ دستکیں دینا
کام رَب نے مِرا لگایا ہے
رَب نے چھوٹی سی عمر میں مجھ کو
دیکھ کتنا بڑا بنایا ہے
اِن شریفوں سے اور خانوں سے
میرے جیسے ہزاروں بچوں کا
ایک لشکر سوال کرتا ہے
""یہ جو بچپن کا ایک موسم ہے ""
""سارے بچوں پہ کیوں نہیں آتا ""
میری مانو تو مان لو اتنا
ان مساجد میں اور تھانوں میں
ساری سڑکوں پہ سب مکانوں میں
خانقاہوں میں آستانوں میں
گلتے سڑتے غلیظ لاشے ہیں
روز قبروں پہ دستکیں دے کر
میرے جیسے ہزار ہا بچے
اپنا "" بابا "" تلاش کرتے ہیں
تم جو کہتے ہو پیشہ ور بچے
اپنے بچپن کی آڑ میں عابی
مال و زر کو تلاش کرتے ہیں
آج سن لو کہ بات اتنی ہے
صدیوں پہلے کہیں پہ کھویا تھا
اپنے ""بابا"" عمر رضی اللہ عنہ کو ہم سب نے
ایسے "" بابا "" کہ جن کے سائے میں
میرے جیسی کسی بھی بچی کا
کوئی بچپن نہیں مرا گھٹ کر
""دس روپے کا سوال ہے بابا ""
یہ صدا تو فقط بہانہ ہے
ہم کو ""بابا"" کے پاس جانا ہے
دس روپے کو سنبھال تُو بابا
ہم کو ""بابا"" کے پاس جانا ہے

عابی مکھنوی

سلامت رہیں



آج بازار میں اور تہوار میں
چار سُو ہر گلی میں ہر اخبار میں
ہم غریبوں کے لاشے ہیں بکھرے ہوئے
خوں میں لتھڑے ہوئے
اور کاندھوں پہ ان کو اٹھائے ہوئے
تیرے بندوں کو لے کر دعا گو ہیں ہم
ڈی ایچ اے اور فضائیہ سلامت رہیں
باجوے اور شریفوں کی بھی خیر ہو
چوہدری اور بھٹو سلامت رہیں
شام سے رات تک رات سے صبح تک
ہم تو لاشیں اٹھانے کو موجود ہیں
اور لاشیں اٹھاتے ہی مر جائیں گے
ہاں مگر تیری اولاد زخمی نہ ہو
تیرے حمزے بلاول سلامت رہیں
تا قیامت رہیں

موسیٰ کاظم

Friday, 17 February 2017

علی زریون ایک قاتل لہجہ


علی زریون ایک قاتل لہجہ

آیتیں سچ ھیں مگر تُو نہیں سچّا مُلّا
تیری تشریح غلط ھے،مِرا قُرآن نہیں
دین کو باپ کی جاگیر سمجھنے والے
تجھ سوا اور یہاں کوئی مسلمان نہیں ؟؟؟

تُو کوئی آج کا دشمن ھے ؟؟ بتاتا ھوں تجھے
تیری تاریخ ابھی یاد دلاتا ھوں تجھے
کون تھے مسجدِ ضرّار بنانے والے ؟؟
تہمتیں خاتمِ مُرسل پہ لگانے والے ؟
آستینوں میں بُتوں کو وہ چُھپانے والے ؟
یاد آیا تجھے ؟؟ او ظلم کے ڈھانے والے

لاکھ فتنے تری پُر فتنہ زباں سے اُٹھّے
تُو اُدھر چیخا،اِدھر لاشے یہاں سے اُٹھّے
تُو جہاں پیر دھرے،امن وہاں سے بھاگے
دوزخی دھول ترے زورِ بیاں سے اُٹھّے
بھیس مسلم کا ،زباں کوفی و شامی تیری
داعشی فکر سے ھے روح جذامی تیری

تُو نے قُرآن پڑھا ؟؟ پڑھ کے گنوایا تُو نے
درس میں بچّوں کو بارود پڑھایا تُو نے
رمزِ سجدہ کو سیاست سے مِلایا تُو نے
لوگ دشمن کے لئے سوچ نہیں سکتے جسے
کارِ بد بخت وہ بچّوں سے کرایا تُو نے

آج دنیا کو جو مسلم کا بھروسہ کوئی نئیں
اِس اذیّت کا سبب تیرے علاوہ کوئی نئیں
تری تفسیرِ غلط فکر نے وہ زخم دئیے
جن کا برسوں تو کُجا،صدیوں مداوا کوئی نئیں

ھُوک اُٹھتی ھے تو سینے کی طرف دیکھتا ھوں
بار بار آج مدینے کی طرف دیکھتا ھوں
دیکھتا ھوں کہ مِرا گنبدِ خضریٰ والا
میرا آقا مِرا مولا مِرا شاہِ اعلیٰ
شافعِ روزِ جزا ،عرضِِ گدا سنتا ھے
جس کے ھونے سے یقیں ھے کہ خدا سنتا ھے
خیر کی ایک چمک ھے جو علی کہتی ھے
رات ھے ؟؟
رات ھمیشہ تو نہیں رہتی ھے ... !!!

علی زریون

Thursday, 16 February 2017

عام سے ہیں ہم


بہت سے عام لوگوں میں
بہت ہی عام سے ہیں ہم
کہ بالکل شام سے ہیں ہم
کہ جیسے شام ہوتی ہے
بہت چپ چاپ اور خاموش
بہت ہی پر سکوں لیکن
کسی پہ مہرباں جیسے
مگر بے چین ہوتی ہے
کوئی ہو رازداں جیسے
خفا صبح کی کرنوں سے
کہ جیسے شام ہوتی ہے
یوں بالکل شام سے ہیں ہم
بہت ہی عام سے ہیں ہم
مگر ان عام لوگوں میں
دل حساس رکھتے ہیں
بہت کچھ خاص رکھتے ہیں
اگرچہ عام سے ہیں ہم







Like Us On Facebook

Monday, 13 February 2017

Valentine's Day


ہوس  کو  پوجنے  والے  شکاری  آج  نکلیں  گے

محبت   کا   تماشا   ہے   مداری   آج   نکلیں گے

لگیں گےنرخ عصمت کےجمےگی ہرطرف بازی

حیا  سے  کھیلنے  والے   جواری   آج  نکلیں  گے

ہزاروں پھول سولی پر چڑھیں گے آج پھر عابی

خدارا   رحم   گُلشن   پہ  شکاری  آج  نکلیں  گے

عابی مکھنوی

Friday, 10 February 2017

آج رونا بہت ضروری ہے



ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺍﮎ ﺷﺎﻡ ﻓﺮﻭﺭﯼ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ
ﺟﺐ ﺗﯿﺮﯼ ﺧﻮﺍﺏ ﻧﻤﺎ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﻣﯿﺮﯼ ﭼﺎﮨﺖ ﮐﯽ ﺩﮬﻨﮏ ﺍﺗﺮﯼ ﺗﮭﯽ
ﺟﺐ ﯾﮧ ﺍﺩﺭﺍﮎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ
ﻣﯿﺮﮮ ﺟﯿﻮﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﺟﺎﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ
ﺗﯿﺮﺍ ﮨﻮﻧﺎ ﺑﮩﺖ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮨﮯ
ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﮐﯿﺴﺎ ﺣﺴﯿﻦ ﻋﺎﻟﻢ ﺗﮭﺎ
ﻣﯿﺮﯼ ﭼﺎﮨﺖ ﮐﮯ ﮨﺮ ﺍﮎ ﻣﻮﺳﻢ ﻣﯿﮟ
ﻋﮑﺲ ﺗﯿﺮﺍ ﺩﮐﮭﺎﺋﯽ ﺩﯾﺘﺎ ﺗﮭﺎ
ﻣﯿﺮﯼ ﺧﺎﻣﻮﺷﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﭘﮩﻠﻮ ﻣﯿﮟ
ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﮐﮭﻠﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﮔﻔﺘﮕﻮ ﺗﯿﺮﯼ
ﺩﯾﺮ ﺗﮏ ﺧﻮﺷﺒﻮﺅﮞ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﺘﺎ ﺗﮭﺎ
ﺗﻮ ﮨﯽ ﻣﺤﻮﺭ ﺗﮭﺎ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﺎ ﻣﯿﺮﯼ
ﺟﺰﻭ ﮨﺴﺘﯽ ﮐﺎ ﻣﺎﻧﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﺗﺠﮭﮯ
ﺑﺠﺰ ﺗﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ ﻣﯿﺮﮮ
ﺗﯿﺮﯼ ﭼﺎﮨﺖ ﻣﯿﺮﺍ ﺍﺛﺎﺛﮧ ﺗﮭﯽ
ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺍﮎ ﺷﺎﻡ ﻓﺮﻭﺭﯼ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ
ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺑﮑﮭﺮﮮ ﺗﮭﮯ ﺭﻧﮓ ﭼﺎﮨﺖ ﮐﮯ
ﺟﺲ ﮐﮯ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﺳﮯ ﺑﮭﯿﮕﺘﮯ ﭘﻞ ﻣﯿﮟ
ﻣﯿﺮﮮ ﺷﺎﻧﮯ ﭘﮧ ﺍﭘﻨﺎ ﺳﺮ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ
ﺗﻮ ﻧﮯ ﺍﻗﺮﺍﺭ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ
ﺗﯿﺮﮮ ﺟﯿﻮﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﺟﺎﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ
ﻣﯿﺮﺍ ﮨﻮﻧﺎ ﺑﮩﺖ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮨﮯ
ﺗﻮ ﻧﮯ ﺍﺱ ﭘﻞ ﻣﯿﮟ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺩﯼ ﺗﮭﯽ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺟﯽ ﻟﯽ ﺗﮭﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺍﭘﻨﯽ
ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺍﮎ ﺷﺎﻡ ﻓﺮﻭﺭﯼ ﮐﯽ ﮨﮯ
ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺑﮑﮭﺮﮮ ﮨﯿﮟ ﺭﻧﮓ ﭼﺎﮨﺖ ﮐﮯ
ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﯾﺎﺩﻭﮞ ﮐﯽ ﺩﮬﻨﺪ ﻣﯿﮟ ﻟﭙﭩﺎ
ﺗﯿﺮﮮ ﺩﻥ ﺭﺍﺕ ﺳﻮﭼﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﺗﯿﺮﯼ ﮨﺮ ﺑﺎﺕ ﺳﻮﭼﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﺟﺰ ﺗﯿﺮﯼ ﯾﺎﺩ، ﭘﺎﺱ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ
ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻣﯿﺪ، ﺁﺱ، ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ
ﺩﻝ ﯾﮧ ﺑﻮﺟﮭﻞ ﮨﮯ ﺷﺪﺕِ ﻏﻢ ﺳﮯ
ﺁﺝ ﺭﻭﻧﺎ ﺑﮩﺖ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮨﮯ
ﻣﯿﺮﮮ ﺟﯿﻮﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﺟﺎﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ
ﺗﯿﺮﺍ ﮨﻮﻧﺎ ﺑﮩﺖ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮨﮯ
ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺍﮎ ﺷﺎﻡ ﻓﺮﻭﺭﯼ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ
ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺍﮎ ﺷﺎﻡ ﻓﺮﻭﺭﯼ ﮐﯽ ﮨﮯ
ﺩﻝ ﯾﮧ ﺑﻮﺟﮭﻞ ﮨﮯ ﺷﺪﺕِ ﻏﻢ ﺳﮯ
ﺁﺝ ﺭﻭﻧﺎ ﺑﮩﺖ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮨﮯ
ﻣﯿﺮﮮ ﺟﯿﻮﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﺟﺎﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ
ﺗﯿﺮﺍ ﮨﻮﻧﺎ ﺑﮩﺖ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮨﮯ

بات تھی محبت کی



بات تھی محبت کی
عمر بھر کی چاہت کی
بھیڑ میں زمانے کی
ساتھ ساتھ چلنا تھا
امتحان بھی آنے تھے
زندگی کے سب ہی پل
ساتھ ہی بتانے تھے
جانے اس نے کیا سوچا
بس اک پل میں ہی
بات ختم کر ڈالی
زندگی جو پوری تھی
وہ ادھوری کر ڈالی
پر کون اسکو سمجھائے
کہ محبتوں کے موسم بھی
روز تو نہیں آتے
یوں زندگی میں اپنوں کو
چھوڑ تو نہیں جاتے

خواہش



اپنے جسم کے ٹکڑے کر کے
پہروں سوچ بچار کے بعد
میں نے اپنا ملبہ بیچا
ہاتھ تو ہاتھوں ہاتھ گئے
پاؤں بھی کوئی لے ہی گیا
آنکھیں میں نے رکھ لی ہیں
یہ میں اس کوبیچوں گا
جوتیری گلی میں رہتا ہو

اک بات کہی جائے



َاک بات کہی جائے
اک نظم لکھی جائے
اک خوشبو پھول بنے
اس بھیگی ٹہنی پر
اس رات کے جنگل میں
اک جگنو چاند بنے
جسے چوم لیا جائے
تجھے یاد کیا جائے
Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...