Saturday 18 February 2017

مٹی کی مہک | محمد مبین امجد


مٹی کی مہک


سنو! میں مر جاؤں تو مجھے گاؤں لے جانا اور اپنی مٹی میں دفنانا۔۔۔
ساری عمر خواہشات کے پیچھے بھاگتے دوڑتے انسان، دنیاوی مال و متاع کیلیے اپنی مٹی کو چھوڑ جاتے ہیں۔۔ مگر مرتے سمے ان کو اپنی مٹی یاد آجاتی ہے، اور یہ یاد بھی تب آتی ہے جب ان کی اولاد انہی کے نقش قدم پہ چلتے چلتے مادہ پرست ہوکر ان سے منہ موڑ لیتی ہے، بات بات پہ جھڑکیاں دیتی ہے اور ساری عمر لاکھوں کمانے والوں کا گذارہ حکومت کے وظیفے پہ ہونے لگتا ہے، تو تب اپنی مٹی یاد آتی ہے، تب اپنے کھیت کھلیان یاد آتے ہیں، تب اپنے یار بیلی یاد آتے ہیں جن کے ساتھ جیون کے سنہری دن بتائے ہوتے ہیں۔
اور یہ طے ہے کہ مٹی سے، اپنی دھرتی ماں سے اور اپنے رشتے ناطوں سے بے وفائی اور چشم پوشی کرنے والوں کا حال یہی ہوتا ہے کہ وہ اپنی مٹی کیلیے تڑپ تڑپ کر جان دے دیتے ہیں مگر انکو پھر جیتے جی اپنی مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو نہیں ملتی۔۔۔ یہاں کے کھیت کھلیانوں سے وہ دور ہوجاتے ہیں، یہاں کے رشتے ناطے ان سے روٹھ جاتے ہیں، ان کے یار بیلی تو یاد کرنا بھی چھوڑ جاتے ہیں، اور میں بھی تو ایک ایسا ہی انسان تھا۔ جو خواہشوں کے پیچھے بھاگتا بھاگتا یہاں تک اس پڑاؤ پہ آن رکا تھا، نہ آگے جا سکتا تھا ور نہ ہی پیچھے، کہ پیچھے والے مجھ سے روٹھ چکے تھے اور میں بھی تو ان سب سے رشتہ ناطہ توڑ کر، رسے تڑوا کر آیا تھا۔
مجھے وہ دن آج بھی یاد ہے جب میں وہاں سے نکل کر یہاں، اس آزاد فضا میں آیا تھا، مگر آتے سمے میری ماں کی آنکھیں ساون بھادوں کا منظر پیش کر رہی تھیں، اس کے آنچل کا پلو گیلا تھا اور جانے اس نے کتنی دیر آنکھوں کے نیر بہائے تھے، میرا باپ بھی کوئی ایسا خوش نہ تھا بلکہ سچ پوچھیے تو وہ اس قدر مضمحل اور افسردہ تھا کہ جیسے اس کی کمر ٹوٹ گئی ہو، اور ایسا کیوں نہ ہوتا کہ جہاں جوان بیٹے اپنے باپ کا سہارا بنتے ہیں وہیں میں اسے بے سہارا کر رہا تھا، سارے شریکے میں میں نے اسکی “کنڈ” لگوادی تھی۔۔۔ پورا شریکا اس پہ ہنستا تھا، اور کیوں نہ ہنستا کہ ربیع کی واڈھی زوروں پہ تھی اور اس کام میں افرادی قوت کی اشد ضرورت ہوتی ہے مگر میں واڈھی کیلیے رک نہیں سکتا تھا۔ میں رک نہیں سکتا تھا کہ مجھے جانا ہی تھا، مجھے اڈاری بھرنی ہی تھی کہ میں ایک خواہشوں کا اسیر پرندہ تھا، اور اسیر پرندے کبھی ٹھہرتے نہیں، کبھی رکتے نہیں، وہ اڑان بھر ہی جاتے ہیں۔
میرا باپ ایک معمولی زمیندار تھا، اور اس نے ساری عمر اس امید پہ سخت محنت کی تھی کہ کبھی نہ کبھی تو اس کی سنی جائے گی، کیونکہ یہ بات مشہور ہے کہ “دودھی پتری دن پھر ہی جاتے ہیں” یعنی جس کے گھر میں دودھ اور بیٹے ہوں کبھی نہ کبھی اس کے حالات بہتر ہو ہی جاتے ہیں، اور اللہ نے میرے باپ کو پتر بھی دیے تھے اور اس کے پاس نیلی بار کی دو بھینسیں بھی تھیں، اب ایسے میں اگر ایک پتر چھوڑ جائے تو وہ افسردہ کیوں نہ ہوتا۔۔ سو وہ افسردہ تھا اور بہت زیادہ تھا۔ مگر میں چلا آیا، سب کو ناراض کر کے اپنی خواہشون کے پیچھے بھاگ آیا مگر میں جتنا ان کا پیچھا کرتا اتنا ہی وہ مجھے سے آگے آگے بھاگتیں سو میں آگے سے آگے بڑھتا رہا۔ اور کبھی مڑ کر نہیں دیکھا۔
جانے کتنا ہی وقت بیت گیا، مگر مجھے کبھی مٹی کی یاد نہیں آئی۔۔۔ میں ان گذرے پینتیس برسوں میں محض چند بار ہی آیا وہ بھی اپنے ماں پیو کو کندھا دینے اور ایک ہمشیرہ کی شادی پہ۔۔۔ اس کے بعد خاندان میں جانے کتنی کی اموات ہوئیں، کتنی ہی شادیاں ہوئیں، مگر میں نہیں گیا۔ اور میں جا کر کرتا بھی کیا کہ وہاں اب کوئی مجھے جانتا ہی نہیں تھا، نہ کوئی یار بیلی تھا، نہ کوئی شریکا تھا۔۔ سب اجنبی اور غیر مانوس تھے، یہاں تک کہ مجھے تو میری مٹی بھی اب نہیں پہچانتی تھی، وہاں کے رسم و رواج مجھے بھول گئے تھے حقے کی نے پر گھنٹوں باتیں کرنا اب میرے لیے اولڈ فیشن تھا کہ اب میں ہوانا کے سگار پیتا تھا اور مختصر بات کرتا تھا۔ غرض یہاں کی ہر بات اب میرے لیے اجنبی تھی اور میں اس کیلیے اجنبی۔۔۔
مگر اب مجھے اپنی مٹی یاد آنے لگی تھی، اٹھتے بیٹھتے میں اسے یاد کرتا تھا، وہاں کی سوندھی سوندھی خوشبو اب میرے نتھنوں کو درکار تھی، وہاں کے موسم، کھیت کھلیان، فصلیں، پھل اور میوے اب مجھے یاد آتے تھے، حقے کی نے پر جمنے والی محفلیں اب مجھے تڑپاتی تھیں، وہاں کی فضا اور گھنے پیڑوں کا سایہ دل لبھاتا تھا اور اب سرد موسموں کی ہلکی ہلکی نرماہٹ اور گرماہٹ لیے دھوپ بھی میرے اسی دھرتی پہ تھی اور وہ بھی تو مجھے یاد آتی تھی اور میں کیا کر سکتا تھا سوائے کڑھنے کے۔۔؟؟؟
بچوں کو کہتا تو ان کے پاس وقت نہیں تھا کہ مجھے گاوں لے چلیں اور خود میرا گذارا حکومت کے وظیفے پہ تھا۔۔۔ اور شاید مجھے اب بھی اپنی مٹی اور اسکی مہک یاد نہ آتی، مگر پردیس میں ہر اس شخص کو اپنی مٹی یاد آنے لگتی ہے جس کا گذارا حکومت کے وظیفے پر ہوتا ہے، اور اس کی اولاد کے پاس اس کیلیے وقت نہیں ہوتا۔۔۔
سو اب میں پچھتاووں میں زندگی بسر کر رہا ہوں، بسر بھی کیا کر رہا ہوں بس بستر علالت پہ ہوں شاید جانبر نہ ہوسکوں۔۔ اس لیے جب طبیعت قدرے زیادہ خراب تھی تو میں نے اپنے بچوں سے کہا “سنو! جب مر جاؤں تو مجھے گاؤں لے جانا اور اپنی مٹی میں دفنانا۔۔۔ ” مگر یہ سن کر وہ ہنس پڑے اور کہنے لگے کہ بابا ایک مردہ شخص کو اس سے کیا غرض کہ اسے کہاں دبا دیا جائے۔۔؟؟؟ ویسے بھی یہاں کے قبرستان نفیس ہیں جبکہ وہاں کے قبرستانوں میں تو وحشت برستی ہے۔
اور میں کیا کہہ سکتا ہوں۔۔؟؟؟ اور انکو کیسے سمجھا سکتا ہوں کہ وطن کی محبت کیا ہے۔۔؟؟؟ مٹی کی مہک کس بلا کا نام ہے۔۔؟؟؟ شاید کبھی نہ کبھی سمجھ ہی جائیں گے، جب میری عمر کو پہنچیں گے۔۔۔
شاید۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...