Saturday 11 February 2017

یقینا بسنت منانا بہت ضروری ہے



کیوں  نہ  ہو  آخر  ثقافت  کی  بقا  مطلوب  ہے ،  کہ جو دم توڑتی جا رہی ہے - کبھی رہا ہو گا موسمی تہوار لیکن ہم نے تو دیکھا کہ اس تہوار نے ہمیشہ  جانیں لیں - معصوم بچے ذبح  کیے  ماؤں  کی  گود  اجاڑی -
یہ ١٩٨٦ کا سن تھا ، میں کالج سے پڑھ  کے  اپنے والد محترم کی دکان  مکتبہ  قدوسیہ  آیا ..وہاں ایک صاحب گورے چٹے سیاہ  داڑھی والے بیٹھے  تھے اور اپنا قصہ  سنا رہے تھے - ان کے چہرے پر زخم کا نشان  جو بھرنے کو تھا ، اور ہاتھ پر بھی گہرے کٹاو کا مندمل ہوتا زخم ...بتا رہے تھے کہ اگلے روز موٹر سائکل پر سوار جا رہے تھے کہ ظالم  ڈور نے آ لیا  ...جان بچی لیکن شدید زخم آئے .. بعد میں معلوم ہوا کہ یہ  عبد الرشید  قمر  تھے جو پاکستان کے معروف خطاط ہیں ....-
پھر  سولہ برس پہلے میں اس جنازے میں تھا ، میں ان دنوں کچھ عرصے کو سمن آباد  میں  اسلامیہ  پارک  کے جوار میں رہائش پذیر تھا .ہمارے ہمسائے  انجینیر  اشفاق صاحب تھے .. متدین  نمازی  با شرع .. بیٹے  کے ساتھ  موٹر سائکل پر جا رہے تھے  .. بیٹا پیچھے بیٹھا تھا ، ڈور آئی اور باپ کو چھوڑتی  ہوئی پیچھے بیٹھے  بیٹھے  کو تاک لیا  اور گلے کو کاٹتی چلی گئی ... سامنے سے آتی تو ممکن  تھا  باپ فوری سواری کو روک لیتا ..لیکن قیامت اب کے سامنے سے نہیں پیچھے سے آئی ...فوری  معلوم  ہی نہ  پڑا  کہ  کیا گزر گئی ... موٹر سائکل روکی  تو شہ رگ کٹ چکی تھی .... باپ بیٹا  کو  اٹھا  کے  ہسپتال بھاگا ....لیکن بیٹا  تو  جا چکا تھا  اور گئے  لوگ  بھی  بھلا  واپس آتے ہیں - آٹھ  نو  برس  کا  سرخ سپید  بیٹا  لاش کی  صورت  باپ  کے  ساتھ  گھر  آ  گیا .. میانی  صاحب قبرستان کی  جناز گاہ   میں  باپ  نے  خود  جنازہ  پڑھایا  ..کمال  ضبط کہ  جو دین  سے گہری وابستگی کی خبر دے رہا تھا ..لیکن باپ  تھا ،  کیسا بھی ضبط ہو  درد  سے  تو چھٹکارا  نہیں .... میں  آج  تک  اس  جنازے  کے اثرات سے  باہر  نہیں نکل سکا .. باپ  کی آواز  میں ایسا درد تھا ،  ایسا سوز  ، اتنی تڑپ کہ میں  کئی  روز تک  بے چین رہا  اور اپنی اہلیہ  سے اس کا تذکرہ کرتا رہا -
پھر انہی  دنوں کا ایک اور قصہ سناتا  ہوں ...ہم بھول  جاتے ہیں نا ، ہماری یادداشت  بہت کمزور ہے ..یہ نعمت  ہی تو ہے کہ ہم بھول جاتے ہیں اور جو بھولتے نہیں  وہ میری طرح رات رات  بھر بستر پر کروٹیں بدلتے رہتے ہیں ، اپنی جان کو جلاتے رهتے ہیں ...وہ  اپنے  باپ کا اکیلا بیٹا تھا اور ایک ہی بیٹی ...انجیبرنگ یونی ورسٹی  لاہور میں گزیٹڈ  آفیسر  باپ  .... زندگی اچھی  گزر رہی  تھی ، امیدیں  جوان ہو رہی تھیں  -  دو ہی بچے تھے ایک بیٹا اور ایک بیٹی - دونوں  بچے اب جوان ہو چلے تھے پڑھ لکھ رہے ، ماں باپ  کی آنکھوں  میں امید کے دیپ زیادہ ہی روشن تھے کہ منزل اب قریب تھی ....بیٹی  کا امتحان  تھا ، بھائی اسے لے کر کر جا  رہا تھا ..لاہور  سٹیشن  سے ذرا  آگے ریلوے پل ہے جسے گڑھی شاہو کا پل کہتے ہیں .... وہاں ڈور  آئی  اور   نوجوان کا گلا  کاٹ گئی ... موٹر سائکل  گری  تو  پیچھے سے ٹرک چڑھا  آ رہا تھا ...دونوں  بچے  کچلے گئے  اور  جان  کی  بازی  ہار گئے  ....  عمر  بھر  کی  کمائی  برسوں  میں ختم ہو گئی ..اور  ہاں  ایک  اور  بات  بھی  بتا  دوں  جو  اخبار  میں  نہ آ  سکی ... کیونکہ  واقعہ  پرانا  ہو  چلا  تھا  خبر  آ  کے  گذر  گئی تھی ....مجھے ایک واقف حال  نے برسوں  بعد  بتایا  کہ  وہ  باپ  پاگل ہو گیا  تھا ....
لیکن  اس  کے  باوجود میں کہوں گا   کہ بسنت منانا بہت ضروری ہے .. وہ اس لیے  کہ :
ہمیں  اپنی  ثقافت  بھی تو  بچانی ہے جو  ساری کی ساری  اس موئی  بسنت میں سمٹ  آئی  ہے ..اور بسنت  کی  رات  کوٹھوں  پر ہونے والے مجروں میں اس کا اظہار ہوتا ہے ..جب  جام الٹائے جاتے ہیں شراب لنڈھائی جاتی ہے  - جی ہاں یہی تو ہماری ثقافت ہے اگر کسی کو  مجھ سے اختلاف ہے  تو  مجھے  بتائے  کیا یہ چار کام اب بسنت کا مستقل حصہ نہیں ...؟ -
کیا   طوائفوں  اور  گرل فرینڈز    کے  بنا بسنت کا تصور ہے ؟
 کیا شراب کے بغیر اسے ادھورا تصور نہیں کیا جاتا ؟
کیا کان  پھاڑنے  والے  انڈین  اور  لچر پنجابی گانوں  کے بغیر یہ پھیکی نہیں جانی جاتی ؟
کیا لاہور  کے ہوٹل اس روز  زنا کے اڈوں  اور طوائف کے کوٹھوں میں نہیں بدل جاتے ؟-
...اور  جو "عقل  کے کورے " اور دانش کے "بزرجمہر " اس کے لیے تاریخ  سے  ڈھونڈھ  ڈھونڈھ کے  "دلائل  " لاتے ہیں کہ اس کا ہندو  ثقافت سے کوئی تعلق نہیں ..بھلے نہ ہو یہ ہندوں  کا  چھوڑ مسلمانوں کا ہی تہوار رہا ہو  لیکن  کیا اس قتل و غارت گری کو ثقافت کہا جا سکتا ہے ؟ ...
  میں ان سے بھی ایک سوال پوچھتا ہوں جو مغرب کے زرخرید  "دانش ور " ہیں کہ مغرب میں شخصی آزادی کا یہ تصور ہے کہ اگر کوئی اپنے بیڈ روم میں بھی اونچی آواز  میں  میوزک   لگائے  اور ہمسایہ  بے آرام ہو تو وہ پولیس  کو بلا سکتا ہے لیکن اس بسنت  میں چھتوں  پر  اس قدر بلند آواز میں میوزک لگایا جاتا ہے ..کیا یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ؟ -
ایک جھوٹ  جو مسلسل بولا جاتا ہے کہ جب سے دھاتی  ڈور آئی تب سے یہ ہلاکتیں  شروع  ہوئیں ... میرا سوال ہے کہ جو چھت سے گر گے مرتے ہیں ، جو پتنگ لوٹتے گاڑیوں کی زد میں آ کی جان ہارتے ہیں اور جو شراب کے نشے میں کی جانے والی ہوائی فائرنگ کی اندھی گولیوں  سے مارے جاتے ہیں وہ کیا ہووے ؟--
آپ تیس برس، چالیس برس پرانے اخبارات اٹھا کے دیکھ لیجئے  - بسنت سے اگلے روز سے اخبارات ان خبروں سے بھرے ہووے ہوں گے  .. اصل میں ہوا یوں کہ قتل و غارت گری حد سے بڑھ گئی ، دھاتی ڈور نے اس میں نمایاں اضافہ کر دیا تو "جرم " کو ثقافت کے چھپانا ممکن نہ رہا ..اور ظاہر ہے کثافت  کب تک ثقافت کے پردے میں چھپائی  جا سکتی ہے ؟-
اس کے حامیوں  کا  ایک ہی مقصد ہے کہ اس معاشرے  میں بے حیائی  کیسے پھیلانی ہے  ، اس کی اخلاقی اقدار کو کیسے تباہ کرنا ہے ؟ سو ان کی حمایت  بھی اسی ایجنڈے کے پیش نظر ہے .......یہ طبقہ اتنا ظالم ہے کہ اپنی تفریح کے لیے  دوسروں  کے گلے کٹنے پر بھی ان کے دلائل یہ ہوتے ہیں ..ایک بسنتی وزیر کا  بیان اخبارات میں چھپا تھا کہ
"اس سے کہیں زیادہ ہلاکتیں ، ڈکیتیوں ، ٹریفک حادثات اور خود کشیوں میں ہوتی ہیں ،جب ا س پر کوئی نہیں بولتا۔" (نوائے وقت)
یہ  ہیں خیالات  اور سطحی پن  ہمارے  ان "انسان دوست  ثقافتیوں " کا ......

...ابوبکر قدوسی

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...