Monday 20 February 2017


ایک‏‎ ‎مسلی سائیکل سےلڑکی کےسامنے منہ کےبل گرگیا اورجلدی اُٹھ گیا
لڑکی: چوٹ تو نہیں لگی  
مسلی: ناں ناں کملیے اساں سائیکل توں لاندھے ای انجے ہاں(نہیں نہیں میں تو سائیکل سے اُترتا ہی ایسے ہوں) 

Tum Hansti achi lagti hu by Farhat Ishtiaq pdf free download

تم ہنستی اچھی لگتی ہو


فرحت اشتیاق کا شمار خواتین میں مقبول ترین رائیٹرز میں ہوتا ہے 
ان کے لکھے ہوئے ناولز مشہور ڈائجسٹس شعاع، آنچل اور خواتین وغیرہ میں شائع ہوتے ہیں
یہ نا صرف ناولز لکھتی ہیں بلکہ ٹی وی ڈرامے بھی لکھتی ہیں
 ان کا لکھا ہوا ناول 'تم ہنستی اچھی لگتی ہو' اب پی ڈی ایف فارمیٹ میں اُردو ادب ڈائری پر میسر ہے

To Download this Novel Click On the '' Download Now ''  button Given Below... 

Sunday 19 February 2017

Farhat Ishtiaq Novel Dil tu he na Sang o Khasht pdf free download

دل تو ہے نہ سنگ و خشت

فرحت اشتیاق کا شمار خواتین میں مقبول ترین رائیٹرز میں ہوتا ہے 
ان کے لکھے ہوئے ناولز مشہور ڈائجسٹس شعاع، آنچل اور خواتین وغیرہ میں شائع ہوتے ہیں
یہ نا صرف ناولز لکھتی ہیں بلکہ ٹی وی ڈرامے بھی لکھتی ہیں
ان کا لکھا ہوا یہ ناول 'دل تو ہے نہ سنگ و خشت'  ہم آپ کے لئے پیش کر رہیں ہیں
To Download this Novel Click On '' Download Now'' button Given Below


:شوہر
جلدی سے ایمبولینس کو کال کرو مجھے ہارٹ اٹیک آرہا ہے

:بیوی شوہر کا موبائل اُٹھاتے ہوئے
جلدی سے پاسورڈ بتائیں

:شوہر
رہنے دو اب آرام آگیا ہے
:لڑکا لڑکی سے
میرے دل میں آجاؤ

:لڑکی
چپل اُتاروں کیا؟

:لڑکا
پگلی ایسے ہی آجاؤ یہ دل ہے کوئی مسجد تھوڑی ہے


بیوی شوہر سے : یہ بتائیں مریخ پر انسان بستے ہیں کیا؟
شوہر: مینوں کی پتا، میں تو اس گھر میں کتے کی طرح رہ رہا ہوں

سرمایہ دارانہ نظام



سابق اشتراکی روس کے صدر جوزف سٹالن ایک مرتبہ اپنے ساتھ پارلیمنٹ میں ایک مرغا لے آیا اور سب کے سامنے اس کا ایک ایک پر نوچنے لگا

مرغا درد سے بلبلاتا رہا

مگر ایک ایک کر کے سٹالن نے اس کے سارے پر اتار دیئے

پھر مرغے کو فرش پر پھینک دیا اور جیب سے کچھ دانے نکال کر مرغے کی طرف پھینک دیئے اور چلنے لگا

مرغا دانا کھاتا ہوا سٹالن کے پیچھے چلنے لگا

سٹالن برابر دانا پھینکتا گیا اور مرغا دانا منہ میں ڈالتا ہوا برابر اس کے پیچھے چلتا ہوا آخر کار سٹالن کے پیروں میں آ کھڑا ہوا

سٹالن نے اپنے کامریڈز کی طرف دیکھا اور اس کے بعد ایک تاریخی فقرہ بولا:

"سرمایہ دارانہ ریاستوں کے عوام اسی مرغے کی طرح ہوتے ہیں
ان کے حکمران پہلے عوام کا سب کچھ لوٹ کر انہیں اپاہج کر دیتے ہیں اور بعد میں معمولی سی خوراک دے کر خود کو انکا مسیحا بنا دیتے ہیں
اور چند سکوں‘ چند نوالوں کے عوض‘ معاشی غلامی کا شکار اور اجتماعی شعور سے محروم عوام بھول جاتے ہیں کہ انہی انسان نما درندوں نے تو ہمیں چوپایوں کے درجے پر لا کھڑا کیا تھا۔"


ایک شخص نے مولوی صاحب سے پوچھا اگر جنگل میں نماز پڑھتے وقت شیر آجائے تو کیا نماز جاری رکھوں ؟

مولوی صاحب نے جواب دیا..!
اگر وضو باقی رہے تو جاری رکھو....!!

Saturday 18 February 2017

مٹی کی مہک | محمد مبین امجد


مٹی کی مہک


سنو! میں مر جاؤں تو مجھے گاؤں لے جانا اور اپنی مٹی میں دفنانا۔۔۔
ساری عمر خواہشات کے پیچھے بھاگتے دوڑتے انسان، دنیاوی مال و متاع کیلیے اپنی مٹی کو چھوڑ جاتے ہیں۔۔ مگر مرتے سمے ان کو اپنی مٹی یاد آجاتی ہے، اور یہ یاد بھی تب آتی ہے جب ان کی اولاد انہی کے نقش قدم پہ چلتے چلتے مادہ پرست ہوکر ان سے منہ موڑ لیتی ہے، بات بات پہ جھڑکیاں دیتی ہے اور ساری عمر لاکھوں کمانے والوں کا گذارہ حکومت کے وظیفے پہ ہونے لگتا ہے، تو تب اپنی مٹی یاد آتی ہے، تب اپنے کھیت کھلیان یاد آتے ہیں، تب اپنے یار بیلی یاد آتے ہیں جن کے ساتھ جیون کے سنہری دن بتائے ہوتے ہیں۔
اور یہ طے ہے کہ مٹی سے، اپنی دھرتی ماں سے اور اپنے رشتے ناطوں سے بے وفائی اور چشم پوشی کرنے والوں کا حال یہی ہوتا ہے کہ وہ اپنی مٹی کیلیے تڑپ تڑپ کر جان دے دیتے ہیں مگر انکو پھر جیتے جی اپنی مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو نہیں ملتی۔۔۔ یہاں کے کھیت کھلیانوں سے وہ دور ہوجاتے ہیں، یہاں کے رشتے ناطے ان سے روٹھ جاتے ہیں، ان کے یار بیلی تو یاد کرنا بھی چھوڑ جاتے ہیں، اور میں بھی تو ایک ایسا ہی انسان تھا۔ جو خواہشوں کے پیچھے بھاگتا بھاگتا یہاں تک اس پڑاؤ پہ آن رکا تھا، نہ آگے جا سکتا تھا ور نہ ہی پیچھے، کہ پیچھے والے مجھ سے روٹھ چکے تھے اور میں بھی تو ان سب سے رشتہ ناطہ توڑ کر، رسے تڑوا کر آیا تھا۔
مجھے وہ دن آج بھی یاد ہے جب میں وہاں سے نکل کر یہاں، اس آزاد فضا میں آیا تھا، مگر آتے سمے میری ماں کی آنکھیں ساون بھادوں کا منظر پیش کر رہی تھیں، اس کے آنچل کا پلو گیلا تھا اور جانے اس نے کتنی دیر آنکھوں کے نیر بہائے تھے، میرا باپ بھی کوئی ایسا خوش نہ تھا بلکہ سچ پوچھیے تو وہ اس قدر مضمحل اور افسردہ تھا کہ جیسے اس کی کمر ٹوٹ گئی ہو، اور ایسا کیوں نہ ہوتا کہ جہاں جوان بیٹے اپنے باپ کا سہارا بنتے ہیں وہیں میں اسے بے سہارا کر رہا تھا، سارے شریکے میں میں نے اسکی “کنڈ” لگوادی تھی۔۔۔ پورا شریکا اس پہ ہنستا تھا، اور کیوں نہ ہنستا کہ ربیع کی واڈھی زوروں پہ تھی اور اس کام میں افرادی قوت کی اشد ضرورت ہوتی ہے مگر میں واڈھی کیلیے رک نہیں سکتا تھا۔ میں رک نہیں سکتا تھا کہ مجھے جانا ہی تھا، مجھے اڈاری بھرنی ہی تھی کہ میں ایک خواہشوں کا اسیر پرندہ تھا، اور اسیر پرندے کبھی ٹھہرتے نہیں، کبھی رکتے نہیں، وہ اڑان بھر ہی جاتے ہیں۔
میرا باپ ایک معمولی زمیندار تھا، اور اس نے ساری عمر اس امید پہ سخت محنت کی تھی کہ کبھی نہ کبھی تو اس کی سنی جائے گی، کیونکہ یہ بات مشہور ہے کہ “دودھی پتری دن پھر ہی جاتے ہیں” یعنی جس کے گھر میں دودھ اور بیٹے ہوں کبھی نہ کبھی اس کے حالات بہتر ہو ہی جاتے ہیں، اور اللہ نے میرے باپ کو پتر بھی دیے تھے اور اس کے پاس نیلی بار کی دو بھینسیں بھی تھیں، اب ایسے میں اگر ایک پتر چھوڑ جائے تو وہ افسردہ کیوں نہ ہوتا۔۔ سو وہ افسردہ تھا اور بہت زیادہ تھا۔ مگر میں چلا آیا، سب کو ناراض کر کے اپنی خواہشون کے پیچھے بھاگ آیا مگر میں جتنا ان کا پیچھا کرتا اتنا ہی وہ مجھے سے آگے آگے بھاگتیں سو میں آگے سے آگے بڑھتا رہا۔ اور کبھی مڑ کر نہیں دیکھا۔
جانے کتنا ہی وقت بیت گیا، مگر مجھے کبھی مٹی کی یاد نہیں آئی۔۔۔ میں ان گذرے پینتیس برسوں میں محض چند بار ہی آیا وہ بھی اپنے ماں پیو کو کندھا دینے اور ایک ہمشیرہ کی شادی پہ۔۔۔ اس کے بعد خاندان میں جانے کتنی کی اموات ہوئیں، کتنی ہی شادیاں ہوئیں، مگر میں نہیں گیا۔ اور میں جا کر کرتا بھی کیا کہ وہاں اب کوئی مجھے جانتا ہی نہیں تھا، نہ کوئی یار بیلی تھا، نہ کوئی شریکا تھا۔۔ سب اجنبی اور غیر مانوس تھے، یہاں تک کہ مجھے تو میری مٹی بھی اب نہیں پہچانتی تھی، وہاں کے رسم و رواج مجھے بھول گئے تھے حقے کی نے پر گھنٹوں باتیں کرنا اب میرے لیے اولڈ فیشن تھا کہ اب میں ہوانا کے سگار پیتا تھا اور مختصر بات کرتا تھا۔ غرض یہاں کی ہر بات اب میرے لیے اجنبی تھی اور میں اس کیلیے اجنبی۔۔۔
مگر اب مجھے اپنی مٹی یاد آنے لگی تھی، اٹھتے بیٹھتے میں اسے یاد کرتا تھا، وہاں کی سوندھی سوندھی خوشبو اب میرے نتھنوں کو درکار تھی، وہاں کے موسم، کھیت کھلیان، فصلیں، پھل اور میوے اب مجھے یاد آتے تھے، حقے کی نے پر جمنے والی محفلیں اب مجھے تڑپاتی تھیں، وہاں کی فضا اور گھنے پیڑوں کا سایہ دل لبھاتا تھا اور اب سرد موسموں کی ہلکی ہلکی نرماہٹ اور گرماہٹ لیے دھوپ بھی میرے اسی دھرتی پہ تھی اور وہ بھی تو مجھے یاد آتی تھی اور میں کیا کر سکتا تھا سوائے کڑھنے کے۔۔؟؟؟
بچوں کو کہتا تو ان کے پاس وقت نہیں تھا کہ مجھے گاوں لے چلیں اور خود میرا گذارا حکومت کے وظیفے پہ تھا۔۔۔ اور شاید مجھے اب بھی اپنی مٹی اور اسکی مہک یاد نہ آتی، مگر پردیس میں ہر اس شخص کو اپنی مٹی یاد آنے لگتی ہے جس کا گذارا حکومت کے وظیفے پر ہوتا ہے، اور اس کی اولاد کے پاس اس کیلیے وقت نہیں ہوتا۔۔۔
سو اب میں پچھتاووں میں زندگی بسر کر رہا ہوں، بسر بھی کیا کر رہا ہوں بس بستر علالت پہ ہوں شاید جانبر نہ ہوسکوں۔۔ اس لیے جب طبیعت قدرے زیادہ خراب تھی تو میں نے اپنے بچوں سے کہا “سنو! جب مر جاؤں تو مجھے گاؤں لے جانا اور اپنی مٹی میں دفنانا۔۔۔ ” مگر یہ سن کر وہ ہنس پڑے اور کہنے لگے کہ بابا ایک مردہ شخص کو اس سے کیا غرض کہ اسے کہاں دبا دیا جائے۔۔؟؟؟ ویسے بھی یہاں کے قبرستان نفیس ہیں جبکہ وہاں کے قبرستانوں میں تو وحشت برستی ہے۔
اور میں کیا کہہ سکتا ہوں۔۔؟؟؟ اور انکو کیسے سمجھا سکتا ہوں کہ وطن کی محبت کیا ہے۔۔؟؟؟ مٹی کی مہک کس بلا کا نام ہے۔۔؟؟؟ شاید کبھی نہ کبھی سمجھ ہی جائیں گے، جب میری عمر کو پہنچیں گے۔۔۔
شاید۔۔۔۔۔۔

دس روپے کا سوال ہے بابا

اپنی بیٹی کی تھام کر انگلی
چیز لینے میں گھر سے نکلا تھا
ایک بچی نے راستہ روکا
وہ جو بچی تھی پانچ سالوں کی
کھوئی سرخی تھی اس کے گالوں کی
کالا چہرہ تو بال بکھرے تھے
اُس کے چہرے پہ سال بکھرے تھے
سُوکھی سُوکھی کلائی پر اُس نے
ایک چُوڑی کہیں سے چھوٹی سی
جانے کیسے پھنسا کے پہنی تھی
پاؤں ننگے قمیص میلی تھی
لٹکی گردن سے ایک تھیلی تھی
خالی خُولی خلا سی آنکھیں تھیں
جیسے کالی بلا سی آنکھیں تھیں
جیسے چابی بھرا کھلونا ہو
جیسے بوڑھا سا کوئی بونا ہو
اس نے کھولا ادا سے مٹھی کو
ننھی منی سی اُس ہتھیلی کو
میں نے دیکھا بڑی حقارت سے
ننھے ہونٹوں کی تھر تھراہٹ پہ
اِک مشینی صدا کے جھٹکے تھے
"" دس روپے کا سوال ہے بابا""
میں نے نفرت سے دیکھ کر اُس کو
ہاتھ جھٹکا کہ جان چھوڑے وہ
وہ ہتھیلی وہیں پہ اٹکی تھی
وہ صدا بھی تھمی نہ اک پل کو
میری عادت ہے پیشے والوں کو
اک روپیہ کبھی نہیں دیتا
میں بھی ضِدی تھا وہ بھی ضِدی تھی
میں نے دیکھا کہ اس کے چہرے پہ
مرتے پچپن کی ہلکی لالی تھی
اس کے جُملے کے سارے لفظوں میں
لفظ ""بابا "" ذرا سا بھاری تھا
دس روپے تو وہ تیز کہتی تھی
لفظ ""بابا "" پہ ہلکی اٹکن تھی
""دس روپے کا سوال ہے بابا ""
اُس کے بابا نے اس کو سِکھلایا
اُس کی اماں نے اس کو رٹوایا
دس روپے تو وہ تیز کہتی تھی
لفظ ""بابا "" پہ کیسی اٹکن تھی
خالی خولی خلا سی آنکھوں نے
میرے چہرے کو غور سے دیکھا
اس کے قاتل سپاٹ چہرے پہ
ایک قاتل سی مسکراہٹ تھی
اس کے ہاتھوں کی انگلیاں مڑ کر
پھر سے مٹھی کی شکل میں آئیں
میں نے دیکھا تو اس کے ماتھے پہ
اک ""عبارت "" رواں سی لکھی تھی
""دس روپے کو سنبھال تُو بابا ""
ساری قبروں پہ دستکیں دینا
کام رَب نے مِرا لگایا ہے
رَب نے چھوٹی سی عمر میں مجھ کو
دیکھ کتنا بڑا بنایا ہے
اِن شریفوں سے اور خانوں سے
میرے جیسے ہزاروں بچوں کا
ایک لشکر سوال کرتا ہے
""یہ جو بچپن کا ایک موسم ہے ""
""سارے بچوں پہ کیوں نہیں آتا ""
میری مانو تو مان لو اتنا
ان مساجد میں اور تھانوں میں
ساری سڑکوں پہ سب مکانوں میں
خانقاہوں میں آستانوں میں
گلتے سڑتے غلیظ لاشے ہیں
روز قبروں پہ دستکیں دے کر
میرے جیسے ہزار ہا بچے
اپنا "" بابا "" تلاش کرتے ہیں
تم جو کہتے ہو پیشہ ور بچے
اپنے بچپن کی آڑ میں عابی
مال و زر کو تلاش کرتے ہیں
آج سن لو کہ بات اتنی ہے
صدیوں پہلے کہیں پہ کھویا تھا
اپنے ""بابا"" عمر رضی اللہ عنہ کو ہم سب نے
ایسے "" بابا "" کہ جن کے سائے میں
میرے جیسی کسی بھی بچی کا
کوئی بچپن نہیں مرا گھٹ کر
""دس روپے کا سوال ہے بابا ""
یہ صدا تو فقط بہانہ ہے
ہم کو ""بابا"" کے پاس جانا ہے
دس روپے کو سنبھال تُو بابا
ہم کو ""بابا"" کے پاس جانا ہے

عابی مکھنوی

سلامت رہیں



آج بازار میں اور تہوار میں
چار سُو ہر گلی میں ہر اخبار میں
ہم غریبوں کے لاشے ہیں بکھرے ہوئے
خوں میں لتھڑے ہوئے
اور کاندھوں پہ ان کو اٹھائے ہوئے
تیرے بندوں کو لے کر دعا گو ہیں ہم
ڈی ایچ اے اور فضائیہ سلامت رہیں
باجوے اور شریفوں کی بھی خیر ہو
چوہدری اور بھٹو سلامت رہیں
شام سے رات تک رات سے صبح تک
ہم تو لاشیں اٹھانے کو موجود ہیں
اور لاشیں اٹھاتے ہی مر جائیں گے
ہاں مگر تیری اولاد زخمی نہ ہو
تیرے حمزے بلاول سلامت رہیں
تا قیامت رہیں

موسیٰ کاظم

Friday 17 February 2017

انسانی جسم کے متعلق 7 غلط فہمیاں


انسانی جسم سے متعلق کئی طرح کی غلط فہمیاں عام ہیں۔ ان میں سے اکثر پرانے وقتوں کے نام نہاد دانشوروں کی باتوں سے اخذ کردہ ہیں جن میں سائنسدان، مفکرین، ماہر نفسیات اور نہ جانے کون کون شامل رہے۔ قابل افسوس امر یہ ہے کہ ہم آج بھی ان باتوں پر یقین رکھتے ہیں باوجودیکہ یہ بعد میں غلط بھی ثابت کی جاچکی ہیں۔ تو آئیے اپنے جسم سے متعلق ان غلط فہمیوں کے بارے میں جانتے ہیں

دماغ کا استعمال:

اکثر لوگ یہ کہتے سنے گئے کہ عام انسان اپنا صرف 10 فیصد دماغ ہی استعمال کرتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ انسان کا دماغ ہمہ وقت مکمل رفتار سے چلتا رہتا ہے چاہے وہ جاگ رہا ہو یا پھر سو رہا ہو۔

آنکھوں کی بینائی:

عام تاثر یہ ہے کہ اندھیرے میں کچھ پڑھنے یا پھر کمپیوٹر اسکرین پر زیادہ دیر نظر جمائے رکھنے سے آپ کی بینائی کمزور ہوجاتی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ عمل صرف آپ کی آنکھوں کو جلد تھکا دیتا ہے اور کچھ وقت بعد تھکن ازخود اتر جاتی ہے۔

دو منہ بال:

اپنی مصنوعات کو بیچنے کے لیے جھوٹے سچے دعوی کرنے والے ادارے کہتے ہیں کہ شیمپو کی مدد سے آپ دو منہ بالوں سے چھکٹارا پاسکتے ہیں۔ لیکن حقیقت میں اس طرح کے بالوں کو قینچی سے کاٹ کر ہی علیحدہ کیا جاسکتا ہے اور اس کا کوئی دوسرا طریقہ موجود نہیں۔

سردی اور بخار:

موسم سرما میں اکثر لوگ گرم کپڑے اس لیے پہنتے ہیں کہ کہیں ان کو بخار نہ ہوجائے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بخار ہونے کے موسم کا سرد ہونا ضروری ہے نہ گرم کپڑے اس بیماری سے آپ کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ بخار ایک خاص طرح کے وائرس سے ہوتا ہے اور اس کا درجہ حرارت کم یا زیادہ ہونے سے کوئی تعلق نہیں۔

دل کی دھڑکن:

ایک خیال یہ بھی عام ہے جب ہم چھینکتے ہیں تو ہمارے دل کی دھڑکن رک جاتی ہے۔ اب آپ خود سوچیئے کہ اگر ایسا حقیقت میں ہے تو پھر دو تین چھینکیں ایک ساتھ آنے پر تو انسان کو مر ہی جانا چاہیے۔ لیکن ایسا نہیں ہوتا کیوں کہ چھینکتے ہوئے دل دھڑکنے کی رفتار کم یا زیادہ ہوسکتی ہے لیکن وہ رکتا بالکل بھی نہیں۔

گاجر اور بینائی:

کہا جاتا ہے کہ گاجر کھانے سے آنکھوں کی روشنی تیز ہوتی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ گاجر آپ کے پٹھوں کو خراب ہونے سے محفوظ رکھتی ہے۔ اب وہ پٹھے چاہے آنکھوں کے ہوں یا جسم کے کسی اور حصے کے، فائدہ تو بہرحال ہوگا ہی لیکن روشنی تیز ہونے والی بات محض غلط فہمی ہے۔

سفید چمکدار دانت:

ٹوتھ پیسٹ اور دوسرے 'منجن' بیچنے والے ادارے اپنے اشتہاروں میں سفید اور چمکدار دانتوں کو صحت کی علامت قرار دیتے ہیں جبکہ حقیقت میں دانتوں کا قدرتی رنگ سفید نہیں بلکہ بہت معمولی سا پیلا ہوتا ہے۔ بالکل پیلے نہیں بلکہ بہت ہلکی پہلاہٹ والے دانت ہی آپ اور آپ کے دانتوں کی بہتر صحت کی علامت ہے۔

مذہب اور تہوار




جارج کی عمر ۵۰ سال سے کچھ زیادہ ہے۔ وہ اپنی بیوی کیتهی اور دو بچوں جوزف ،کیلی کے ساتھ واشنگٹن میں رہتا ہے۔

عید الاضحٰی قریب آ رہی تھی۔ جارج اور اسکے گھر والے ٹی وی، ریڈیو اور انٹرنیٹ پر دیکھ رہے تھے کہ عید کس تاریخ کو ہو گی۔ بچے روز اسلامی ویب سائٹس پر چیک کر رہے تھے۔ سب کو عید کا بےصبری سے انتظار تھا۔

جیسے ہی ذوالحجہ شروع ہوا،ان لوگوں نے عید کی تیاریاں شروع کر دیں۔گھر کے قریب ہی ایک فارم ہاؤس تھا۔ وہاں سے ایک بھیڑ خریدی، جسکے چناؤ میں انھوں نے تمام اسلامی اصولوں کو مدنظر رکھا۔

بھیڑ کو گاڑی میں رکھا اور گھر کی راہ لی۔  بچوں کا خوشی کے مارے کوئی ٹھکانا نہ تھا۔
جارج کی بیوی، کیتھی نے گھر پہنچ کر اسکو بتایا کہ وہ اس بھیڑ کے تین حصے کریں گے۔ایک حصہ غریبوں میں بانٹ دیں گے، ایک حصہ اپنے ہمسائیوں ڈیوڈ، لیزا، اور مارک کو بھیج دیں گے اور ایک حصہ اپنے استعمال کے لئے رکھیں گے۔

یہ تمام معلومات اسے اسلامی ویب سائٹس سے ملی تھیں۔ کتنے دن کے انتظار کے بعد عید کے دن آ ہی گیا۔ بچے خوشی خوشی صبح سویرے جاگے اور تیار ہو گئے۔ اب بھیڑ کو ذبح کرنے کا مرحلہ آیا۔ انھیں قبلہ کی سمت کا نہیں پتہ تھا لیکن اندازاٴ مکہ کی طرف رخ کر کے جارج نے بھیڑ ذبح کر لی۔

کیتھی گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کر رہی تھی کہ اچانک جارج کی نظر گھڑی پر پڑی۔وہ کیتھی کی طرف منہ کر کے چلایا ”ہم چرچ کے لئے لیٹ ہو گئے۔ آج سنڈے ہے اور چرچ جانا تھا۔”

جارج ہر اتوار باقائدگی سے اپنے بیوی بچوں کیساتھ چرچ جاتا تھا لیکن آج عید کے کاموں کی وجہ سے چرچ کا ٹائم نکل گیا۔

میں یہاں تک بول کر چپ ہو گیا۔

ہال میں سب بہت غور سے میری بات سن رہے تھے۔
میرہے خاموش ہونے پر ایک بندہ بول اٹھا
”آپ نے ہمیں کنفیوز کر دیا ہے۔
جارج مسلمان ہے یا کرسچن؟”

میں نے جواب دیا:
”جارج کرسچن ہے۔”

یہ سن کر ہال میں چہ مگوئیاں شروع ہو گئیں۔
آخر ایک شخص کہنے لگا:
”یار ! وہ کرسچن کیسے ہوسکتا ہے؟
اگر وہ کرسچن ہوتا تو مسلمانوں کا تہوار اتنے
جوش اور عقیدت سے کیوں مناتا؟
عید کی تاریخ کا خیال رکھنا،
پیسہ خرچ کر کے بھیڑ خریدنا،
اسے اسلامی طریقے پر ذبح کرنا؟

” میں یہ سن کر مسکرایا اور بولا:
میرے پیارے بھائیو!
یہ کہانی آپکو اتنی ناقابل یقین کیوں لگ رہی ہے؟
آپکو یقین کیوں نہیں آ رھا کہ
ایسی کرسچن فیملی موجود ہو سکتی ہے؟

کیا ہم مسلمانوں میں سے کبھی کوئی عبداللہ، کوئی خالد، کوئی خدیجہ، کوئی فاطمہ نہیں دیکھی جو کرسچن کے تہوار مناتے ہوں؟ اپنے مسلمان بہن بھائیوں کونیو ائیر، ویلنٹائن، بلیک فراییڈے ہالووین، برتھ ڈیز وغیرہ مناتے نہیں دیکھا؟

اگر وہ سب حیران کن نہیں تو یہ بات آپکو حیران کیوں کر رہی ہے کہ غیر مسلم ہمارے تہوار منائیں؟ جارج کا کرسچن ہو کر عید منانا ہمیں عجیب لگ رہا ہے لیکن مسلمان تمام غیر اسلامی تہواروں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں تو کسی کو عجیب نہیں لگتا۔

بخدا! میں دس سال امریکہ میں رہا۔ کبھی کسی یہودی یا عیسائی کو مسلمانوں کا تہوار مناتے نہیں دیکھا، لیکن جب میں واپس اپنے مسلمان ملک آیا تو مسلمانوں کو انکے تہوار بیت جوش و خروش سے مناتے دیکھا۔

ہال میں سب خاموش تھے۔
کیا یہ بات ایک کڑوی سچائی نہیں ؟؟؟

علی زریون ایک قاتل لہجہ


علی زریون ایک قاتل لہجہ

آیتیں سچ ھیں مگر تُو نہیں سچّا مُلّا
تیری تشریح غلط ھے،مِرا قُرآن نہیں
دین کو باپ کی جاگیر سمجھنے والے
تجھ سوا اور یہاں کوئی مسلمان نہیں ؟؟؟

تُو کوئی آج کا دشمن ھے ؟؟ بتاتا ھوں تجھے
تیری تاریخ ابھی یاد دلاتا ھوں تجھے
کون تھے مسجدِ ضرّار بنانے والے ؟؟
تہمتیں خاتمِ مُرسل پہ لگانے والے ؟
آستینوں میں بُتوں کو وہ چُھپانے والے ؟
یاد آیا تجھے ؟؟ او ظلم کے ڈھانے والے

لاکھ فتنے تری پُر فتنہ زباں سے اُٹھّے
تُو اُدھر چیخا،اِدھر لاشے یہاں سے اُٹھّے
تُو جہاں پیر دھرے،امن وہاں سے بھاگے
دوزخی دھول ترے زورِ بیاں سے اُٹھّے
بھیس مسلم کا ،زباں کوفی و شامی تیری
داعشی فکر سے ھے روح جذامی تیری

تُو نے قُرآن پڑھا ؟؟ پڑھ کے گنوایا تُو نے
درس میں بچّوں کو بارود پڑھایا تُو نے
رمزِ سجدہ کو سیاست سے مِلایا تُو نے
لوگ دشمن کے لئے سوچ نہیں سکتے جسے
کارِ بد بخت وہ بچّوں سے کرایا تُو نے

آج دنیا کو جو مسلم کا بھروسہ کوئی نئیں
اِس اذیّت کا سبب تیرے علاوہ کوئی نئیں
تری تفسیرِ غلط فکر نے وہ زخم دئیے
جن کا برسوں تو کُجا،صدیوں مداوا کوئی نئیں

ھُوک اُٹھتی ھے تو سینے کی طرف دیکھتا ھوں
بار بار آج مدینے کی طرف دیکھتا ھوں
دیکھتا ھوں کہ مِرا گنبدِ خضریٰ والا
میرا آقا مِرا مولا مِرا شاہِ اعلیٰ
شافعِ روزِ جزا ،عرضِِ گدا سنتا ھے
جس کے ھونے سے یقیں ھے کہ خدا سنتا ھے
خیر کی ایک چمک ھے جو علی کہتی ھے
رات ھے ؟؟
رات ھمیشہ تو نہیں رہتی ھے ... !!!

علی زریون

فیس بک اب دہشت گردوں کی شناخت کرے گی


زکربرگ کا کہنا تھا کہ فیس بُک کےلیے الگورتھمز کو بہتر بنانے پر کام شروع کیا جاچکا ہے جو آئندہ پانچ سال میں مکمل ہوجائے گا۔ (فوٹو: فائل)

سلیکان ویلی: مشہور سوشل میڈیا ویب سائٹ فیس بک کے بانی  مارک زکربرگ نے کہا ہے کہ ان کا ادارہ مصنوعی ذہانت کے ذریعے دہشت گردی اور شدت پسندانہ رجحانات رکھنے والے افراد کی نشاندہی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد کرے گا۔

کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی دنیا میں ’’مصنوعی ذہانت‘‘ (آرٹی فیشل انٹیلی جنس) کا استعمال کوئی نئی بات نہیں اور سرچ انجنز سے لے کر سوشل میڈیا ویب سائٹس تک کسی نہ کسی حد تک اس کا استعمال کررہے ہیں جس کے تحت کسی بھی صارف کی جانب سے بار بار استعمال کئے گئے الفاظ (کی ورڈز) کو مدنظر رکھتے ہوئے خودکار طور پر سرچ اور مطابقت رکھنے والی پوسٹیں دکھائی جاتی ہیں۔

اسی طرح اب تک انٹرنیٹ پر تصاویر/ گرافکس پہچاننے والے الگورتھمز اور ان پر مشتمل سافٹ ویئر بھی اتنے جدید ہوچکے ہیں کہ وہ کسی تصویر کے ساتھ دیئے گئے مخصوص الفاظ یعنی کی ورڈز کے علاوہ تصویر میں دکھائی جانے والی جزئیات تک کی مدد سے اس بارے میں بہت کچھ بتاسکتے ہیں۔

مارک زکربرگ کا منصوبہ ان ہی الگورتھمز کو جدید تر کرتے ہوئے اس قابل بنانا ہے کہ وہ ہر ایک منٹ میں کروڑوں کے حساب سے کی جانے والی فیس بُک پوسٹوں کا متن کھنگال کر ان میں ایسے الفاظ کی نشاندہی کرسکیں جو شدت پسندی اور دہشت گردی کے علمبردار ہوں۔ مزید یہ کہ ان الگورتھمز کو اس قابل بھی بنانا ضروری ہوگا کہ وہ تصویر کی شکل میں تحریری پوسٹوں میں دی گئی عبارت کو پہچان سکیں یعنی ان میں ’’او سی آر‘‘ کی صلاحیت بھی آج کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہو۔ علاوہ ازیں انہیں صرف تصاویر کے ظاہری خد و خال دیکھ کر یہ بھی جاننے کے قابل ہونا چاہئے کہ کہیں ان میں شدت پسندی یا دہشت گردی سے تعلق رکھنے والا کوئی منظر تو موجود نہیں۔

اگرچہ یہ صلاحیتیں پہلے ہی مصنوعی ذہانت سے لیس الگورتھمز اور متعلقہ سافٹ ویئر میں موجود ہیں لیکن سب سے بڑا چیلنج انہیں بہت زیادہ ڈیٹا (بگ ڈیٹا) کو بہت ہی کم وقت میں کھنگالنے اور درست نتائج دینے  کے قابل بنانا ہے۔ زکربرگ کے بقول، سوشل میڈیا پر روزانہ اربوں تعداد میں پوسٹیں، تصویریں اور تبصرے شیئر کرائے جاتے ہیں جنہیں فی الفور کھنگالنے کےلیے فیس بُک کے موجودہ سافٹ ویئر اور الگورتھمز یکسر ناکافی ہیں۔ انہیں اتنے بڑے پیمانے کے ڈیٹا کو کھنگالنے کم سے کم وقت میں درست نتائج دینے کے قابل بنانے میں 5 سال کی محنت درکار ہوگی۔

زکربرگ کا کہنا تھا کہ ان کے ادارے فیس بُک میں ان سافٹ ویئر کے الگورتھمز بہتر بنانے کے منصوبے پر کام شروع کیا جاچکا ہے اور انہیں یقین ہے کہ مذکورہ تمام اہداف کو حاصل کرتے ہوئے یہ منصوبہ آئندہ پانچ سال کے اندر اندر مکمل کرلیا جائے گا۔

مستقبل کے اس الگورتھم/ سافٹ ویئر کی مدد سے آن لائن موجود معصوم اور مجرمانہ رجحانات رکھنے والے افراد میں تیزی سے فرق کیا جاسکے گا جس سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی بہت مدد ملے گی۔

واضح رہے کہ بھیجی اور وصول کی گئی ای میلز کو کھنگال کر مشکوک متن شناخت کرنے والے الگورتھمز پہلے ہی امریکی ایف بی آئی اور سی آئی اے وغیرہ جیسے اداروں کے استعمال میں ہیں لیکن سوشل میڈیا پر سرگرمیاں بڑھنے کے ساتھ ساتھ انہیں ایک نئی جہت میں ترقی دینے کی ضرورت ہے۔

Thursday 16 February 2017

آٹھواں براعظم دریافت


آٹھواں براعظم دریافت



بچوں کو بتایا جاتا ہے بلکہ آپ کو بھی یہی علم ہے کہ دنیا میں سات براعظم ہیں: افریقہ، ایشیا، انٹارکٹیکا، آسٹریلیا، یورپ، شمالی امریکا اور جنوبی امریکا۔

مگر اب سائنسدانوں نے انکشاف کیا ہے کہ درحقیقت زمین کا ایک اور براعظم بھی ہماری آنکھوں کے سامنے ہونے کے باوجود اوجھل تھا اور اسے زی لینڈیا کا نام دیا گیا ہے۔

اور یہ بحرالکاہل میں نیوزی لینڈ اور نیو کیلیڈونیا سے منسلک ہے۔

گیارہ محققین کی ٹیم نے دریافت کیا کہ نیوزی لینڈ اور نیو کیلیڈونیا درحقیقت 49 لاکھ اسکوائر کلومیٹر پر پھیلے ایک براعظمی قشر پر مشتمل ہیں جو کہ آسٹریلیا سے الگ ہے۔

جغرافیائی لحاظ سے دکھا جائے تو اس وقت دنیا میں چھ براعظم ہیں: افریقہ، انٹار کٹیکا، آسٹریلیا، یورایشیا، شمالی امریکا اور جنوبی امریکا، یور ایشیاءایسا جغرافیائی خطہ ہے جو کہ یورپ اور ایشیاءپر مشتمل ہے۔

49 لاکھ اسکوائر کلو میٹر کے ساتھ زی لینڈیا زمین کا سب سے چھوٹا براعظم ہوگا۔

تحقیق کے مطابق یہ زمین کا سب سے کم عمر، پتلا اور ڈوبا ہوا براعظم بھی ہے جس کا 94 فیصد حصہ پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔

محققین کا کہنا تھا کہ زی لینڈیا میں وہ تمام چاروں عناصر موجود ہیں جو کسی براعظم کے لیے ضروری تصور کیے جاتے ہیں۔

ان عناصر میں سمندری قشر سے خطے کی بلندی، تین اقسام کی چٹانیں، پتلا اور کم گنجان قشر اور اتنا بڑے خطہ جو اسے چھوٹے براعظم یا برصغیر کی کیٹیگری سے الگ کرسکے۔

محققین کا کہنا تھا کہ زی لینڈیا کی اہمیت براعظموں کی فہرست میں ایک اضافی نام کی بجائے سائنسی لحاظ سے زیادہ ہوگی۔

محققین کے مطابق رقبے کے لحاظ سے یہ بھارت کے حجم کا ہے اور یہ مانا جاتا ہے کہ دس کروڑ سال پہلے انٹار کٹیکا اور 8 کروڑ سال پہلے آسٹریلیا سے الگ ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ اچانک درافت نہیں بلکہ یہ بتدریج سامنے آنے والی حقیقت ہے۔

اس حوالے سے تحقیقی مقالہ جریدے جیالوجیکل سوسائٹی آف امریکا میں شائع ہوا۔

وٹس ایپ کا اپنے صارفین کے لئے ایک نیا فیچر متعارف کروانے ارادہ






 واٹس ایپ نے اہم فیچر متعارف کروا کر صارفین کی پریشانی ختم کردی،اب آپ اپنے سٹیٹس کی جگہ پر بھی تصویر اپ لوڈ کر سکیں گے۔تفصیلات کے مطابق واٹس ایپ کے نئے بیٹا ورژن میں سٹیٹ کی جگہ کچھ لکھنے کے علاوہ تصویر کے ذریعے اپنے جذبات کا اظہار کرنے کی آپشن بھی فراہم کردی گئی ہے۔

اس فیچر کے تحت کوئی تصویر صرف 24گھنٹوں کیلئے ہی سٹیٹس کی جگہ رہ سکے گی اور اس کے بعد کوئی نئی تصویر اپ لوڈ کرنا ہو گئی۔"



گدھ اور شاھین

گدھ اور شاھین


ایک دفعہ ایک گدھ اور ایک شاہین بلند پرواز ہو گئےـ بلندی پر ہوا میں تیرنے لگےـ وہ دونوں ایک جیسے ہی نظر آ رہے تھےـ اپنی بلندیوں پر مست، زمین سے بےنیاز، آسمان سے بےخبر، بس مصروفِ پروازـ دیکھنے والے بڑے حیران ہوۓ کہ یہ دونوں ہم فطرت نہیں،ہم پرواز کیسے ہو گئے؟ 
شاہین نے گدھ سے کہا “دیکھو اس دنیا میں ذوقِ پرواز کے علاوہ اور کوئی بات قابلِ غور نہیں”ـ گدھ نے بھی تکلفاً کہہ دیا “ہاں مجھے بھی پرواز عزیز ہےـ میرے پَر بھی بلند پروازی کے لئے مجھے ملے” لیکن کچھ ہی لمحوں بعد گدھ نے نیچے دیکھاـ اسے دور ایک مرا ہوا گھوڑا نظر آیاـ اس نے شاہین سے کہا “جہنم میں گئی تمہاری بلند پروازی اور بلند نگاہی ـ مجھے میری منزل پکار رہی ہے”ـ اتنا کہہ کر گدھ نے ایک لمبا غوطہ لگایا اور اپنی منزلِ مردار پر آ گراـ فطرت الگ الگ تھی، منزل الگ الگ رہی ـہم سفر آدمی اگر ہم فطرت نہ ہو تو ساتھ کبھی منزل تک نہیں پہنچتاـانسانوں کو اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ معلوم کرنا مشکل نہیں ہوگا کہ فطرت اپنا اظہار کرتی رہتی ہےـ جو کمینہ ہے وہ کمینہ ہی ہے خواہ وہ کسی مقام و مرتبہ میں ہو ـ
میاں محمّد صاحبؒ کا ایک مشہور شعر ہے کہ ؂نیچاں دی اشنائی کولوں کسے نئیں پھل پایاککر تے انگور چڑھایا ہر گچھا زخمایا (کمینے انسان کی دوستی کبھی کوئی پھل نہیں دیتی جس طرح کیکر پر انگور کی بیل چڑھانے کا نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ ہرگچھا زخمی ہو جاتا ہے

عام سے ہیں ہم


بہت سے عام لوگوں میں
بہت ہی عام سے ہیں ہم
کہ بالکل شام سے ہیں ہم
کہ جیسے شام ہوتی ہے
بہت چپ چاپ اور خاموش
بہت ہی پر سکوں لیکن
کسی پہ مہرباں جیسے
مگر بے چین ہوتی ہے
کوئی ہو رازداں جیسے
خفا صبح کی کرنوں سے
کہ جیسے شام ہوتی ہے
یوں بالکل شام سے ہیں ہم
بہت ہی عام سے ہیں ہم
مگر ان عام لوگوں میں
دل حساس رکھتے ہیں
بہت کچھ خاص رکھتے ہیں
اگرچہ عام سے ہیں ہم







Like Us On Facebook

Wednesday 15 February 2017

چونٹی اور شہد



شہد کا ایک قطره زمین پر گر گیا. ایک چھوٹی سی چیونٹی آئی اور اُس نے اس شہد کے قطرے سے تھوڑا سا چکھا۔ اُسے بڑا مزا آیا۔
اسے کام سے جانا تھا تو جب وہ جانے لگی تو اس شہد کا مزہ اس کے منہ میں مزید پانی لانے کا سبب بنا، اُس کا منہ بھر آیا:
کیا زبردست اور مزے دارشہد ہے۔
کتنا میٹھا!
آج تک ایسا شہد نہیں کھایا!!
وہ لوٹی اور شہد میں سے تھوڑا سا اور چکھ لیا...
اس نے دوبارہ جانے کا عزم کیا مگر اُس نے محسوس کیا کہ یہ تھوڑا سا شہد کھانا کافی نہیں ہے، اُسے اور کھانا چاھئے۔
وہ رکی اور اس مرتبہ کھانے کے بجائے شہد پر گر پڑی تا کہ وہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ لذت حاصل کرلے!
وہ چیونٹی شہد میں غوطہ زن ہو گئی اور لطف اندوز ہونے لگی۔
مگر افسوس کہ وہ شہد سے باہر نہ نکل سکی۔
شہد کی چکنائی کی وجہ سے اس کے پیر زمین سے چپک گئے تھے اور اس میں انہیں ہلانے کی طاقت نہ رہی...!
وہ شہد میں رہ گئی یہاں تک کہ وہ اسی میں ہی مر گئی !
اس کی لذت اندوزی نے شہد کو ہی اس کی قبر میں تبدیل کر دیا!
ایک دانا کا قول ھے:
دنیا شہد کے ایک بہت بڑے قطرے کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے!
پس جو بھی اس قطرہ شہد میں سے تھوڑا اور بقدر کفایت کھانے پر اکتفاء کرے گا وہ نجات پا جائے گا اور جو بھی اس شیرینی میں غوطہ زن ہو گا ہلاکت اس کا مقدر بن جائے گی ۔ ۔

Jannat ke patte by nimra ahmed pdf free download

'' جنت کے پتے''




نمرہ احمد ایک پاکستانی ناول نگار ہیں جو متعدد ناولز اور کہانیوں کی مصنفہ ہیں۔
ان کا شمار خواتین میں مقبول ترین رائیٹرز میں ہوتا ہے ۔
ان کے ناولز میں پختگی اور حقیقت کا رنگ ہوتاہے ۔
انکی تصنیفات مندرجہ ذیل ہیں ۔
حَد، احمق تماشائی، گُمان، ابلیس، لاپتہ، اپنی انگلی، پارس، جنت کے پتے
مگر ان کا سب سے مشہور ناول جنت کے پتےہے
درحقیقت یہ ایک اصلاحی ناول ہے جو معاشرے کی راہ روی کو واضح کرتا ہے اور ہمیں دین پر ثابت قدم رہنا سکھاتا ہے
اس ناول کا لنک نیچے دیا گیا ہے آپ پر کلک کرکے سنگل کلک کی صوت میں ڈاؤنلوڈ کرسکتے ہیں بالکل مفت




ڈاؤنلوڈنگ میں کسی بھی قسم کی پرابلم کی صورت میں ہم سے رابطہ کریں


Tuesday 14 February 2017

Aab e hayat by umaira ahmed full download in pdf free



Aab e Hayyat



Download all 25 episodes of Aab-e-Hayat novel in Single Pdf. Aab-e-Hayat's last episode is recently completed by Umera Ahmed in an Urdu Digest.

The famous Urdu Pdf Novel "Aab-e-Hayat" complete is here for free download and read online. This Urdu novel is authored by Ms. Umera Ahmed who is a learned Urdu novelist, Urdu writer and one of the most popular Urdu Novelist from Pakistan. She has written many other Urdu novel and almost all of her novels are being appreciated by the Urdu lovers.

Aab-e-Hayat Urdu novel is considered the sequel of famous Urdu novel Peer-e-Kamil which was gone viral on internet because of its distinguished topic. Later on the Peer-e-Kamil Novel was also translated into English language with the same name Peer-e-Kamil in English. Aab-e-Hayat is the second part of Peer-e-Kamil. This is a short Urdu novel and another masterpiece of Umera Ahmed. Umera Ahmed has rocked once again by authoring this beautiful Urdu novel Aab-e-Hayat.

To Download this novel click on ''Download Now'' given below


In case of any problem contact with us
like us on facebook
share it with others
and give us your feedback

shukriya
Team Urdu Adab Diary

دو منٹ میں سر سے 38 کیلیں ٹھوکنے کا انوکھا ریکارڈ


امریکی پہلوان اور کھلاڑی جان فیرارو نے اٹلی کے ایک گیم شو میں دو منٹ میں اپنے سر سے 38 کیلیں ٹھوک کر ورلڈ ریکارڈ قائم کردیا۔

اٹلی کے ایک گیم شو میں امریکی پہلوان اور کھلاڑی جان فیرارو نے اپنے سر سے دو منٹ میں 38 کیلیں ٹھوک کر لوگوں کے حیران کردیا۔ فیرارو کے اس کارنامے کی بدلولت ان کا نام گینس بک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی شامل کرلیا گیا ہے۔



جان فیرارو نے ٹریننگ، تیاری اور توجہ کو اس کامیابی کی وجہ قرار دیا ہے۔



اس سے قبل ایک منٹ میں اپنے سر سے سب سے زیادہ کیلیں ٹھونکنے والا کھلاڑی کا اعزاز بھی فیرارو کو ہی حاصل ہے۔

Aakhir shab k hamsafar by Qurat ul Ain Haider pdf free download

آخر شب کے ہمسفر


Aakhir shab k hamsafar is a very famous urdu nove written by Qurat ul Ain Haider.
It's now available on "Urdu Adab Diary" 
Chick on The Button Download Now to download it free.
If you like our work kindly like it,  share it with other &
Send us Your Feedback
Link is given below👇

Download Now




Regards: Team Urdu Adab Diary

Monday 13 February 2017

Valentine's Day


ہوس  کو  پوجنے  والے  شکاری  آج  نکلیں  گے

محبت   کا   تماشا   ہے   مداری   آج   نکلیں گے

لگیں گےنرخ عصمت کےجمےگی ہرطرف بازی

حیا  سے  کھیلنے  والے   جواری   آج  نکلیں  گے

ہزاروں پھول سولی پر چڑھیں گے آج پھر عابی

خدارا   رحم   گُلشن   پہ  شکاری  آج  نکلیں  گے

عابی مکھنوی

Peer e kamil by Umaira Ahmed pdf Free download




پیرِ کامل صلی اللہ علیہ وسلم


Download or read on-line another beautiful Urdu novel
"Peer-e-Kamil" by Umaira Ahmad and discover about a very beautiful religious story of a girl namely Imama who becomes Muslims from the worst Qadiyani religion and faces very difficulties behalf of her own family because she is already engaged with his Qadyani cousin and it is not possible for her to marry her Qadiyani Cousin. She takes the help of one of her neighbor namely Salar who is very intelligent and Muslim young boy. Salar is not a very religious boy. They both e.g Imama and Salar do not like each other too. I neither summarize this novel here nor you will be able to enjoy this novel once I summarize this lengthy novel, you should download or read online Peer-e-Kamil novel. Umaira Ahmed has written this novel in a very realistic way so that you will completely be lost in the story. Peer e Kamil is one of the most read Urdu novel. This is also one of the most popular Urdu novel written by Umera Ahmed.

"Peer-e-Kamil" is the title name of this Urdu Novel which means the Perfect Mentor. This Urdu novel is authored by Ms. Umera Ahmed who is the most popular female Urdu novelist from Pakistan. All of her novels are appreciated by the Urdu readers. Umera Ahmed is also script writer. Peer-e-Kamil was very liked and gone viral after publishing. Now this novel is also available in English language as well.

The writer of this Novel "Peer-e-Kamil", Ms. Umaira Ahmad is a famous Urdu novelist. She got so many fans because of this novel "Peer-e-Kamil". This novel is one of her most popular novels. She has started her career in 1998. She is a famous Urdu novelist from Sialkot, Pakistan. She has also written many Dramas for television channels too.

You can free download and read online Peer e Kamil Novel from the blinking buttons below the sample pages. Please scroll down to download.

To Download or Read Online this Novel click on ''Download" Or "Read Only" Buttons Below 👇

Download Now
Or
Read This Online


ڈاؤنلوڈنگ میں کسی بھی قسم کی پرابلم کی صورت میں ہم سے رابطہ کریں
اگر آپ کو ہمارا کام پسند آئے تو اسے آگے شئیر کریں

شکریہ

Sunday 12 February 2017

خطرہ....!!




گلوبل وارمنگ دہائیوں پہلے خطرے کی گھنٹی بجا چکی ہے اور اب انٹارکٹکا کی برف میں پڑنے والی دراڑیں ناقابل یقین حد تک بڑی ہو رہی ہیں
سائنسدانوں کے مطابق 5500 مربع کلومیٹر کا ایک ٹکڑا چند ہفتوں کے اندر اندر کٹ کر سمندر میں گرنے والا ہے جس سے سمندری سطح میں اضافہ ہو جائے گا
امریکی ریاست ٹیکساس جتنے ایک اور ٹکڑے کی دراڑ تیزی سے بڑھ رہی ہے اور ممکن ہے کہ یہ بھی اگلے چند سالوں میں سمندر برد ہو جائے گا اور یہ زمین باسیوں کے لیے بہت بڑا حادثہ ہو گا

یاد رہے کہ سمندری سطح میں اضافے کے باعث ماہرین 2050 تک مالدیپ کے مکمل طور پر سمندر برد ہونے کی خبر سنا چکے ہیں اور  امریکہ کی طرف سے مالدیپ کے شہریوں کی رہائش واسطے بھارتی حکومت کو خط بھی لکھ دیا گیا ہے
اگر صورتحال پیشینگوئی کے مطابق ہی رہی تو بنگلہ دیش کے پچیس فیصد علاقے سمیت دنیا کے کئی ساحلی شہر سمندر نگل جائے گا


Photo Credit Mr John "NASA"

محبت کیا ہے....!!


آجکل محبت صرف نفسانی تسکین کا نام ہے۔
ہمارے معاشرے میں زیادہ تر محبت کی شادیاں‘ نفر ت کی طلاقوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں لیکن پھر بھی دھڑا دھڑ محبتیں اور ٹھکا ٹھک طلاقیں جاری ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ محبت سے نفرت کا سفر ایک شادی کی مار ہے ۔۔۔ کتنی عجیب بات ہے کہ لڑکا لڑکی اگر ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہو جائیں تو ان کی محبت بڑھنے کی بجائے دن بدن کم ہوتی چلی جاتی ہے؟ ایک دوسرے سے اکتاہٹ محسوس ہونے لگتی ہے۔ کیا وجہ ہے کہ محبت کا آغاز خوبصورت اور انجام بھیانک نکلتا ہے؟؟؟ آخرایک دوسرے کی خاطر مرنے کے دعوے کرنے والے ایک دوسرے کو مارنے پر کیوں تل جاتے ہیں۔۔؟ وجہ بہت آسان ہے ۔۔۔ بلبل کا بچہ کھچڑی بھی کھاتا تھا‘ پانی بھی پیتا تھا‘ گانے بھی گاتا تھا‘ لیکن جب اسے اڑایا تو پھر واپس نہ آیا۔ اس لیے کہ محبت آزادی سے ہوتی ہے‘ قید سے نہیں۔ ہمارے ہاں الٹ حساب ہے‘ جونہی کسی لڑکے کو کسی لڑکی سے محبت ہوتی ہے‘ ساتھ ہی ایک عجیب قسم کی قید شروع ہوجاتی ہے۔۔۔لڑکیوں کی فرمائشیں کچھ یوں ہوتی ہیں’’شکیل اب تم نے روز مجھے رات آٹھ بجے چاند کی طرف دیکھ کر آئی لو یو کا میسج کرنا ہے۔۔۔ اب ہم چونکہ ایک دوسرے سے محبت کرنے لگے ہیں لہذا ہر بات میں مجھ سے مشورہ کرنا ۔۔۔ روز انہ کم ازکم پانچ منٹ کے لیے فون ضرور کرنا۔۔۔میں مسڈ کال دوں تو فوراً مجھے کال بیک کرنا۔۔۔فیس بک پر روز مجھے کوئی رومانٹک سا میسج ضرور بھیجنا۔۔! لڑکوں کی فرمائشیں کچھ یوں ہوتی ہیں۔۔۔ جان! اب تم نے اپنے کسی Male کزن سے بات نہیں کرنی۔۔۔ کپڑے خریدتے وقت صرف میری مرضی کا کلر خریدنا۔۔۔ وعدہ کرو کہ بے شک تمہارے گھر میں آگ ہی کیوں نہ لگی ہو‘ تم میرے میسج کا جواب ضرور دو گی۔۔۔جان شاپنگ کے لیے زیادہ باہر نہ نکلا کرو‘ مجھے اچھا نہیں لگتا۔۔۔‘‘
محبت کے ابتدائی دنوں میں یہ قید بھی بڑی خمار آلود لگتی ہے‘ لیکن جوں جوں دن گذرتے جاتے ہیں دونوں طرف کی فرمائشیں بڑھتے بڑھتے پہلے ڈیوٹی بنتی ہیں پھر ضد اور پھر انا کا روپ دھار لیتی ہیں اور پھر نفرت میں ڈھلنے لگتی ہیں۔ اسی دوران اگر لڑکے لڑکی کی شادی ہوجائے تو رہی سہی کسر بھی پوری ہو جاتی ہے۔ میری ذاتی رائے میں محبت آسانیاں پیدا کرنے کا نام ہے‘ لیکن ہم لوگ اسے مشکلات کا گڑھ بنا دیتے ہیں۔ غور کیجئے۔۔۔ ہمیں جن سے محبت ہوتی ہے ہم جگہ جگہ ان کے لیے آسانیاں پیدا کرتے ہیں‘ ہم اپنے بچے کے بہتر مستقبل کے لیے اپنا پیٹ کاٹ کر اس کی فیس دیتے ہیں‘ خود بھوکے بھی رہنا پڑے تو اولاد کے لیے کھانا ضرور لے آتے ہیں‘ لائٹ چلی جائے تو آدھی رات کو اپنی نیند برباد کرکے‘ ہاتھ والا پنکھا پکڑ کر بچوں کو ہوا دینے لگتے ہیں۔۔۔ہم بے شک جتنے مرضی ایماندار ہوں لیکن اپنے بچے کی سفارش کرنی پڑے تو سارے اصول بالائے طاق رکھ دیتے ہیں۔۔۔ یہ ساری آسانیاں ہوتی ہیں جو ہم اپنی فیملی کو دے رہے ہوتے ہیں کیونکہ ہمیں اُن سے محبت ہوتی ہے۔ اسی طر ح جب لڑکے لڑکی کی محبت شروع ہوتی ہے تو ابتداء آسانیوں سے ہی ہوتی ہے۔۔۔اور یہی آسانیاں محبت پیدا کرنے کا باعث بنتی ہیں‘ لیکن آسانیاں جب مشکلات اور ڈیوٹی بننا شروع ہوتی ہیں تو محبت ایک جنگلے کی صورت اختیار کرنے لگتی ہے‘ محبت میں ڈیوٹی نہیں دی جاسکتی لیکن ہمارے ہاں محبت ایک فل ٹائم ڈیوٹی بن جاتی ہے‘ ٹائم پہ میسج کا جواب نہ آنا‘ کسی کا فون اٹینڈ نہ کرنا‘ زیادہ دنوں تک ملاقات نہ ہونا ۔۔۔ان میں سے کوئی بھی ایک بات ہو جائے تو محبت کرنے والے شکایتی جملوں کا تبادلہ کرتے کرتے زہریلے جملوں پر اُتر آتے ہیں اور یہیں سے واپسی کا سفر شروع ہو جاتا ہے۔ جب کوئی کسی کے لیے آسانی پیدا کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا تو محبت بھی اپنا دامن سکیڑنے لگتی ہے‘ میں نے کہا ناں۔۔۔ محبت نام ہی آسانیاں پیدا کرنے کا ہے ‘ ہم اپنے جن دوستوں سے محبت کرتے ہیں ان کے لیے بھی آسانیاں پیدا کرتے ہیں‘‘ اللہ تعالیٰ بھی چونکہ اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے‘ اس لیے ان کے لیے جا بجا آسانیاں پیدا کرتا ہے۔
مجھے محبت میں گرفتار ہونے والے بالکل بھی پسند نہیں‘ محبت گرفتاری نہیں رہائی ہے۔۔۔ ٹینشن سے رہائی۔۔۔ تنہائی سے رہائی۔۔۔ مایوسی سے رہائی۔ لیکن ہمارے معاشرے میں محبت ہوتے ہی ٹینشن ڈبل ہو جاتی ہے اور دونوں پارٹیاں ذہنی مریض بن کر رہ جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ محبت شروع تو ہو جاتی ہے لیکن پوری طرح پروان نہیں چڑھ پاتی۔ لیکن جہاں محبت اصلی محبت کی شکل میں ہوتی ہے وہاں نہ صرف پروان چڑھتی ہے بلکہ دن دوگنی اور’’رات‘‘ چوگنی ترقی بھی کرتی ہے۔ ہمارا المیہ ہے کہ ہمارے ہاں محبت سے مراد صرف جنسی تعلق لیا جاتا ہے‘ یہ محبت کا ایک جزو تو ہوسکتا ہے لیکن پوری محبت اس کے گرد نہیں گھومتی‘ بالکل ایسے جیسے کسی اسلم کا ایک ہاتھ کاٹ کر الگ کر دیا جائے تو اُس کٹے ہوئے ہاتھ کو کوئی بھی اسلم نہیں کہے گا‘ اسلم وہی کہلائے گا جو جڑے ہوئے اعضاء رکھتا ہوگا۔ ویسے بھی یہ کیسےہوسکتا ہے کہ ساری محبت کا انحصار چند لمحوں کی رفاقت کو قرار دے دیا جائے۔ محبت زندان نہیں ہوتی‘ حوالات نہیں ہوتی‘ جیل نہیں ہوتی‘ بند کمرہ نہیں ہوتی‘ کال کوٹھڑی نہیں ہوتی۔۔۔ محبت تو تاحد نظر ایک کھلا میدان ہوتی ہے جہاں کوئی جنگلے‘ کوئی خاردار تاریں اور کوئی بلند دیواریں نہیں ہوتیں۔ آپ تحقیق کر کے دیکھ لیجئے‘ جہاں محبت ناکام ہوئی ہوگی وہاں وجوہات یہی مسائل بنے ہوں گے۔ ہر کوئی اپنی محبت جتلاتا ہے اور دوسرے کو بار بار یہ طعنے مارتا ہے کہ تمہیں مجھ سے محبت نہیں۔
لوگ کہتے ہیں کہ محبت کی نہیں جاتی‘ ہو جاتی ہے۔ غلط ہے۔۔۔ محبت کی ایک چھوٹی سی کونپل دل میں از خود ضرور پھوٹتی ہے لیکن اسے تناور درخت بنانے کے لیے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ وہ محبت کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی جہاں شکوے ‘شکایتیں اور طعنے شامل ہو جائیں۔ ایسے لوگ بدقسمت ہیں جو محبت کرنا نہیں جانتے لیکن محبت کر بیٹھتے ہیں اور پھر دوسرے کو اتنا بددل کر دیتے ہیں کہ وہ محبت سے ہی انکاری ہو جاتا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ محبت کی شادی کرنے والے اکثر جوڑوں کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی اولاد اس رستے پر نہ چلے۔ ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ ہم میں سے اکثر نے صرف محبت کا نام سنا ہے‘ اس کے تقاضوں سے واقف نہیں۔ ہمیں کوئی پسند آجائے تو ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں اس سے محبت ہو گئی ہے۔ پسند آنے اور محبت ہونے میں بڑا فرق ہے‘ کسی کو پسند کرنا محبت نہیں ہوتا لیکن محبت تک پہنچنے کے لیے پہلا زینہ ضرور ہوتاہے۔ میں نے بے شمار لوگوں کو انا کے خول میں لپٹے محبت کرتے دیکھا ہے‘ یہ محبت میں بھی اپنی برتری چاہتے ہیں‘ ان کے نزدیک محبت میں بھی سٹیٹس ہوتا ہے‘ حالانکہ محبت میں تو محمود و ایاز کی طرح ایک ہونا پڑتا ہے‘ رہ گئی بات انا کی ‘ تو یہ وقتی سکون تو دے دیتی ہے لیکن اِس کمبخت کے سائڈ ایفیکٹس بہت ہیں!
انا کی جنگ میں ہم جیت تو گئے لیکن
پھر اُس کے بعد بہت دیر تک نڈھال رہے.

Mushaf by Nimra Ahmed pdf free download




 مُصحف


Free download or read online another must read Urdu Novel "Mushaf" and read a very beautiful Urdu story about an orphan and poor girl who is guided by the Holy Qur'an and her miserable life changes to a comfortable life. Mushaf is the title name of this Urdu novel which is authored by Nimra Ahmed. Nimra Ahmed is one of the most popular Urdu novelists in Pakistan. She has authored a lot of Urdu stories and novels that are published in different Urdu magazines and novels. Mushaf Novel was also published in an Urdu digest on the basis of monthly episodes but now the whole episodes and full story of Mushaf Novel is here in a single Pdf file.

Urdu Novel Mushaf by Nimra Ahmed is not a romantic novel. Nimra Ahmed has mostly focused on the miracle of the Holy Quran. The Holy book that helps the orphan poor girl to understand the real meaning of life brings the positive change in her life. Umera Ahmed's Peer-e-Kamil is about the Holy Prophet and Nimra Ahmed's Mushaf is about the Holy Quran. Both novels are appreciated and got attention.

Mushaf by Nimra Ahmed is here in Pdf format with the size of 30.7 MB and as long as 250 pages with double columns. You can free download and read online this Urdu novel from the button below the sample pages.
Some sample papers are given below


Click on the buttons below to "Download"   or "Read Online"  this Novel 👇


Jorey ka Phool free download in pdf


"جُوڑے کا پھول"


 Jooray Ka Phool is a very dramatic romantic Urdu story written by Mr. Mohiuddin Nawab. Jooray Ka Phool is available here for free download and online reading. The title name "Jooray Ka Phool" means the Flower of Dress. This is an Urdu love dostory, narrated with excellent Urdu words by the writer Mr. Mohayyuddin Nawab. Jooray Ka Phool is the story of the romantic moments when two lovers meet for the first time, and the lover convinces his/her love to his/her beloved. And when the boyfriend wants to give a gift to his beloved, the compulsion creates distances between them. Jooray Ka Phool story has many colors of love such as love at first sight, love of childhood, love that changes into hate and vice versa. The standard of this Urdu novel is that this novel is written by Mr. Mohiuddin Nawab who has his own fan club because of his Urdu stories. Jooray Ka Phool is for all those Urdu readers who love someone or who have ever loved someone.

The Romantic Urdu Novel "Jooray Ka Phool by Mohiuddin Nawab" is here in Pdf. 
Sample Pages of the Urdu Novel "Jooray Ka Phool" By Mohayyuddin Nawab

















To Download this or Read This Novel online Click On Download  & Read Online  Below 👇

Download
Or
Read Online

Saturday 11 February 2017

مالک اور مرغا


ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﺟﮕﮧ ﺍﯾﮏ ﻣﺮﻏﺎ ﺭﻭﺯﺍﻧﮧ ﻓﺠﺮ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﺍﺫﺍﻥ ﺩﯾﺎ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ .
ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﻣﺮﻏﮯ ﮐﮯ ﻣﺎﻟﮏ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﭘﮑﮍ ﮐﺮ ﮐﮩﺎ : ﺁﺝ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﮔﺮ ﺗﻮ ﻧﮯ ﭘﮭﺮ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﺫﺍﻥ ﺩﯼ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺗﯿﺮﮮ ﺳﺎﺭﮮ ﭘﺮ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﺍﮐﮭﺎﮌ ﻟﯿﻨﮯ ﮨﯿﮟ .
ﻣﺮﻏﮯ ﻧﮯ ﺳﻮﭼﺎ ﮐﮧ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﭘﮍ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﭘﺴﭙﺎﺋﯽ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺣﺮﺝ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺍ ﮐﺮﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺷﺮﻋﯽ ﺳﯿﺎﺳﺖ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﯾﮩﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﺟﺎﻥ ﺑﭽﺎﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺍﺫﺍﻥ ﺩﯾﻨﺎ ﻣﻮﻗﻮﻑ ﮐﺮﻧﺎ ﭘﮍ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺟﺎﻥ ﺑﭽﺎﻧﺎ ﻣﻘﺪﻡ ﮨﮯ . ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﻣﯿﺮﮮ ﻋﻼﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﮐﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﺮﻏﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﮨﺮ ﺣﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﺍﺫﺍﻥ ﺩﮮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ، ﻣﯿﺮﮮ ﺍﯾﮏ ﮐﮯ ﺍﺫﺍﻥ ﻧﺎ ﺩﯾﻨﮯ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ ﻓﺮﻕ ﭘﮍﮮ ﮔﺎ . ﺍﻭﺭ ﻣﺮﻏﮯ ﻧﮯ ﺍﺫﺍﻥ ﺩﯾﻨﺎ ﺑﻨﺪ ﮐﺮﺩﯼ .
ﮨﻔﺘﮯ ﺑﮭﺮ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﺮﻏﮯ ﮐﮯ ﻣﺎﻟﮏ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﺭ ﭘﮭﺮ ﻣﺮﻏﮯ ﮐﻮ ﭘﮑﮍ ﮐﺮ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺁﺝ ﺳﮯ ﺗﻮ ﻧﮯ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﻣﺮﻏﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮐﭩﮑﭩﺎﻧﺎ ﮨﮯ، ﻧﮩﯿﮟ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺗﯿﺮﮮ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ ﻧﻮﭺ ﻟﯿﻨﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺗﺠﮭﮯ ﻣﺎﺭﻧﺎ ﺑﮭﯽ ﮨﮯ . ﺍﻭﺭ ﻣﺮﺗﺎ ﮐﯿﺎ ﻧﺎ ﮐﺮﺗﺎ، ﻣﺮﻏﮯ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻭﺿﻌﺪﺍﺭﯼ ﮐﻮ ﭘﺲ ﭘﺸﺖ ﮈﺍﻻ ﺍﻭﺭ ﻣﺮﻏﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮐﭩﮑﭩﺎﻧﺎ ﺑﮭﯽ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﺩﯾﺎ .
ﻣﮩﯿﻨﮯ ﺑﮭﺮ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﺮﻏﮯ ﮐﮯ ﻣﺎﻟﮏ ﻧﮯ ﻣﺮﻏﮯ ﮐﻮ ﭘﮑﮍ ﮐﺮ ﮐﮩﺎ ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ﻧﮯ ﮐﻞ ﺳﮯ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﻣﺮﻏﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﻧﮉﮦ ﺩﯾﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﻧﺎ ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺗﺠﮭﮯ ﭼﮭﺮﯼ ﭘﮭﯿﺮ ﺩﯾﻨﯽ ﮨﮯ .
ﺍﺱ ﺑﺎﺭ ﻣﺮﻏﺎ ﺭﻭ ﭘﮍﺍ ﺍﻭﺭ ﺭﻭﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﭖ ﺳﮯ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ : ﮐﺎﺵ ﺍﺫﺍﻧﯿﮟ ﺩﯾﺘﺎ ﺩﯾﺘﺎ ﻣﺮ ﺟﺎﺗﺎ ﺗﻮ ﮐﺘﻨﺎ ﺍﭼﮭﺎ ﮨﻮﺗﺎ، ﺁﺝ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﻄﺎﻟﺒﮧ ﺗﻮ ﻧﺎ ﺳﻨﻨﺎ ﭘﮍﺗﺎ۔
ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﻣﻌﺬﺭﺕ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ! ﺍﺳﻼﻡ ﮐﻮ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﺁﺝ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺣﺎﻟﺖ ﺍﺱ ﻣﺮﻏﮯ ﺟﯿﺴﯽ ﮨﻮﮔﺌﯽ ﮨﮯ ، ﺍﻭﺭ ﺁﺝ ﺍﺱ ﻣﺮﻏﮯ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮨﻢ ﺳﮯ ﺍﻧﮉﮮ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﻟﺒﮯ ﮐﺌﮯ ﺟﺎﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ، ﺭﮨﮯ ﺳﮩﮯ ﺍﺳﻼﻡ ﺳﮯ ﺩﺳﺘﺒﺮﺍﺩﺭ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﭼﺎﻟﯿﮟ ﭼﻼﺋﯽ ﺟﺎﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ﮐﺎﺵ ﮨﻢ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﯽ ﺁﺫﺍﻥ ﺩﯾﺘﮯ ﺩﯾﺘﮯ ﻗﺮﺑﺎﻥ ﮨﻮﺟﺎﺗﮯ ﻣﮕﺮ ﺍﺱ ﺑﺎﻃﻞ ﻧﻈﺎﻡ ﮐﻮ ﮔﻠﮯ ﻧﮧ ﻟﮕﺎﺗﮯ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !!!!!

ﮨﻢ ﺳﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ ﻣﺮﻏﺎ ﺍﭼﮭﺎ ﺗﮭﺎ ﺟﺴﮯ ﯾﮧ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﺗﻮ ﮨﻮﺍ، ﮨﻤﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﺑﮭﯽ ﺗﮏ ﯾﮧ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﺳﮯ ﺍﺳﻼﻡ ﻧﮧ ﮐﺒﮭﯽ ﺁﯾﺎﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮨﯽ ﮐﺒﮭﯽ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ ۔

بیٹی، اک ڈھال 🌹


اُس کی شادی کو دس سال ہو رہے تھے۔۔۔ قدرت نے اُسے بیٹیوں جیسی رحمت سے نوازا تھا۔۔
ہر مرتبہ اُسے خواہش ہوتی کہ بیٹا پیدا ہو۔۔ لیکن یکے بعد دیگرے پھول جیسی چھ بیٹیاں اس کے آنگن میں اُتر آئی تھیں۔۔۔
بیٹا نہ ہونے کے سبب خاندان اور گھر والوں کی تلخ باتیں بھی اُسے سہنی پڑ جاتیں۔۔۔
اس بار پھر اُس کی بیوی کے ہاں ولادت متوقع تھی۔۔۔ لیکن وہ دل میں ہی ڈر رہا تھا کہ اس بار پھر بیٹی پیدا نہ ہو جائے۔۔۔
"اب کے بار بھی اگر لڑکی پیدا ہوئی تو بیوی کو طلاق دے کر فارغ کر دینا ۔۔۔۔"
اُس کی آپا نے اسے دوٹوک انداز میں کہہ ڈالا۔۔۔
"بیٹی کی پیدائش میں بھلا میری بیوی کا کیا قصور ۔۔؟؟"
وہ اپنے ہی ذہن میں سوچتا۔۔۔ پھر سر جھٹک کر فیصلوں کو حالات کے دھارے پر چھوڑ دیتا۔۔۔
لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا۔۔۔ شیطان کے کاری وار اُس کے دل و دماغ پر اثر کرتے گئے یہاں تک اُس نے پکا ارادہ کر لیا کہ اگر اب کے بار بھی لڑکی پیدا ہوئی تو وہ اپنی بیوی کو طلاق دے دے گا۔!
ایک رات وہ سویا تو کیا دیکھتا ہے کہ قیامت برپا ہو چکی ہے، ہر طرف افراتفری کا ماحول ہے.
میزانِ عمل میں اس کے گناہوں کا بوجھ اتنا ہے کہ زندگی بھر کی نیکیاں بھی کام نہیں آ سکیں اور ان گناہوں کی پاداش میں اس پر جہنم واجب ہو چکی ہے..
فرشتے اسے زنجیروں میں جکڑ کر جہنم کی طرف گھسیٹتے ہوئے جا رہے ہیں۔۔ اِس کی چیخ و پکار آہ و بکا کا کچھ بھی اثر نہیں ہو رہا۔۔۔ اچانک کیا دیکھتا ہے کہ جہنم کے دروازے پر اِس کی ایک بیٹی کھڑی ہے.. وہ باپ کو دیکھ کر آگے بڑھتی ہے اور فرشتوں کو روک دیتی ہے۔۔۔
فرشتے اِس کو لے کر دوسرے دروازے کی طرف چل پڑتے ہیں۔۔۔ وہاں پہنچ کر دیکھتا ہے کہ اس کی دوسری بیٹی کھڑی ہے اور فرشتوں کو آگے نہیں جانے دے رہی۔۔
فرشتے وہاں سے اِسے لے کر تیسرے دروازے پر جاتے ہیں۔۔ وہاں اس کی تیسری بیٹی اپنے باپ کیلئے جہنم سے آڑ بن جاتی ہے۔۔
اس طرح چوتھے۔۔۔ پانچویں اور پھر چھٹے دروازے تک فرشتے اس کو لے کر جاتے ہیں مگر ہر دروازے پر اس کی بیٹیاں اس کا دفاع کرتی ہیں اور جہنم میں جانے سے روک دیتی ہیں۔
اب ساتواں دروازہ باقی تھا، فرشتے اِس کو زنجیروں میں جکڑے ساتویں دروازے کی طرف چل پڑتے ہیں۔۔
اب اس پر شدید گھبراہٹ طاری ہونے لگی کہ اس دروازے پر میرے لئے کون رکاوٹ بنے گا۔۔؟؟؟
اسی گھبراہٹ اور خوف کے عالم میں اچانک ہی اُس کی آنکھ کُھل گئی، وہ پسینے میں شرابور تھا اور جسم پر کپکپی طاری تھی، اسے احساس ہونے لگا کہ شیطان کے بہکاوے میں آ کر انتہائی غلط فیصلہ کر بیٹھا تھا.
اسی حالت میں اُس نے اللہ کے حضور ہاتھ بلند کئے۔۔۔ آنسو اُس کے رخساروں پر بہہ رہے تھے اور لرزتے ہونٹوں سے دعا نکلی...
"اے اللہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے ساتویں بیٹی عطا فرما ۔۔۔۔۔۔"

آج کے بیدین اور فرسودہ افکار نے سوچ کو اس حد تک گِرا دیا کہ بیٹیوں کو رحمت کے بجائے دورِ جاہلیت کی طرح اور بے عزتی کا سبب خیال کیا جانے لگا ہے، مسلمان معاشرے میں ﺟﻦ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﺎ ﻗﻀﺎ ﻭ ﻗﺪﺭ ﭘﺮ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﮨﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﻟﮍﮐﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﭘﯿﺪﺍﺋﺶ ﭘﺮ ﺭﻧﺠﯿﺪﮦ ﺧﺎﻃﺮ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﺧﻮﺵ ﮨﻮﻧﺎ ﭼﺎہئے کیونکہ بیٹیاں رحمتِ خداوندی کا حصہ اور جہنم سے بچاؤ کا ذریعہ ہیں، ایمان کی کمزوری کے باعث جن لوگوں کا ﯾﮧ ﺗﺼﻮﺭ ﺑﻦ ﭼﮑﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻟﮍﮐﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﭘﯿﺪﺍﺋﺶ ﮐﺎ ﺳﺒﺐ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯾﺎﮞ ﮨﯿﮟ ﯾﮧ ﺳﺮﺍ ﺳﺮ ﻏﻠﻂ ﮨﮯ۔۔۔ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﻮﯾﻮﮞ ﮐﺎ ﯾﺎ ﺧﻮﺩ ﺍﻥ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﻋﻤﻞ ﺩﺧﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﻣﯿﺎﮞ ﺑﯿﻮﯼ ﺗﻮ ﺻﺮﻑ ﺍﯾﮏ ﺫﺭﯾﻌﮧ ﮨﯿﮟ۔۔
اولاد کی نعمت سے نوازنے والا ﺻﺮﻑ ﺍﻟﻠﮧ ﻭﺣﺪﮦ ﻻﺷﺮﯾﮏ ﮨﮯ...
ارشاد باری تعالٰی ہے:
"ﻭہ جو چاہے پیدا کرتا ہے۔۔۔ جس کو چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے دیتا ہے یا (جس کو چاہتا ہے) بیٹے اور بیٹیاں ملا جُلا کر دیتا ہے اور جسے چاہے بانجھ کر دیتا ہے."
(سورۃ الشورٰی: 49-50)

رسول اکرم (ص) نے فرمایا:
"جس شخص کو بیٹیوں کے ذریعے آزمائش میں ڈالا گیا اور اس نے احسن طریقے سے ان کی پرورش کی تو اس کے لیے یہ بچیاں جہنم سے بچاؤ کے لئے ڈھال بن جائیں گی."
(بخاری، کتاب الزکاة، حدیث:1418)

یقینا بسنت منانا بہت ضروری ہے



کیوں  نہ  ہو  آخر  ثقافت  کی  بقا  مطلوب  ہے ،  کہ جو دم توڑتی جا رہی ہے - کبھی رہا ہو گا موسمی تہوار لیکن ہم نے تو دیکھا کہ اس تہوار نے ہمیشہ  جانیں لیں - معصوم بچے ذبح  کیے  ماؤں  کی  گود  اجاڑی -
یہ ١٩٨٦ کا سن تھا ، میں کالج سے پڑھ  کے  اپنے والد محترم کی دکان  مکتبہ  قدوسیہ  آیا ..وہاں ایک صاحب گورے چٹے سیاہ  داڑھی والے بیٹھے  تھے اور اپنا قصہ  سنا رہے تھے - ان کے چہرے پر زخم کا نشان  جو بھرنے کو تھا ، اور ہاتھ پر بھی گہرے کٹاو کا مندمل ہوتا زخم ...بتا رہے تھے کہ اگلے روز موٹر سائکل پر سوار جا رہے تھے کہ ظالم  ڈور نے آ لیا  ...جان بچی لیکن شدید زخم آئے .. بعد میں معلوم ہوا کہ یہ  عبد الرشید  قمر  تھے جو پاکستان کے معروف خطاط ہیں ....-
پھر  سولہ برس پہلے میں اس جنازے میں تھا ، میں ان دنوں کچھ عرصے کو سمن آباد  میں  اسلامیہ  پارک  کے جوار میں رہائش پذیر تھا .ہمارے ہمسائے  انجینیر  اشفاق صاحب تھے .. متدین  نمازی  با شرع .. بیٹے  کے ساتھ  موٹر سائکل پر جا رہے تھے  .. بیٹا پیچھے بیٹھا تھا ، ڈور آئی اور باپ کو چھوڑتی  ہوئی پیچھے بیٹھے  بیٹھے  کو تاک لیا  اور گلے کو کاٹتی چلی گئی ... سامنے سے آتی تو ممکن  تھا  باپ فوری سواری کو روک لیتا ..لیکن قیامت اب کے سامنے سے نہیں پیچھے سے آئی ...فوری  معلوم  ہی نہ  پڑا  کہ  کیا گزر گئی ... موٹر سائکل روکی  تو شہ رگ کٹ چکی تھی .... باپ بیٹا  کو  اٹھا  کے  ہسپتال بھاگا ....لیکن بیٹا  تو  جا چکا تھا  اور گئے  لوگ  بھی  بھلا  واپس آتے ہیں - آٹھ  نو  برس  کا  سرخ سپید  بیٹا  لاش کی  صورت  باپ  کے  ساتھ  گھر  آ  گیا .. میانی  صاحب قبرستان کی  جناز گاہ   میں  باپ  نے  خود  جنازہ  پڑھایا  ..کمال  ضبط کہ  جو دین  سے گہری وابستگی کی خبر دے رہا تھا ..لیکن باپ  تھا ،  کیسا بھی ضبط ہو  درد  سے  تو چھٹکارا  نہیں .... میں  آج  تک  اس  جنازے  کے اثرات سے  باہر  نہیں نکل سکا .. باپ  کی آواز  میں ایسا درد تھا ،  ایسا سوز  ، اتنی تڑپ کہ میں  کئی  روز تک  بے چین رہا  اور اپنی اہلیہ  سے اس کا تذکرہ کرتا رہا -
پھر انہی  دنوں کا ایک اور قصہ سناتا  ہوں ...ہم بھول  جاتے ہیں نا ، ہماری یادداشت  بہت کمزور ہے ..یہ نعمت  ہی تو ہے کہ ہم بھول جاتے ہیں اور جو بھولتے نہیں  وہ میری طرح رات رات  بھر بستر پر کروٹیں بدلتے رہتے ہیں ، اپنی جان کو جلاتے رهتے ہیں ...وہ  اپنے  باپ کا اکیلا بیٹا تھا اور ایک ہی بیٹی ...انجیبرنگ یونی ورسٹی  لاہور میں گزیٹڈ  آفیسر  باپ  .... زندگی اچھی  گزر رہی  تھی ، امیدیں  جوان ہو رہی تھیں  -  دو ہی بچے تھے ایک بیٹا اور ایک بیٹی - دونوں  بچے اب جوان ہو چلے تھے پڑھ لکھ رہے ، ماں باپ  کی آنکھوں  میں امید کے دیپ زیادہ ہی روشن تھے کہ منزل اب قریب تھی ....بیٹی  کا امتحان  تھا ، بھائی اسے لے کر کر جا  رہا تھا ..لاہور  سٹیشن  سے ذرا  آگے ریلوے پل ہے جسے گڑھی شاہو کا پل کہتے ہیں .... وہاں ڈور  آئی  اور   نوجوان کا گلا  کاٹ گئی ... موٹر سائکل  گری  تو  پیچھے سے ٹرک چڑھا  آ رہا تھا ...دونوں  بچے  کچلے گئے  اور  جان  کی  بازی  ہار گئے  ....  عمر  بھر  کی  کمائی  برسوں  میں ختم ہو گئی ..اور  ہاں  ایک  اور  بات  بھی  بتا  دوں  جو  اخبار  میں  نہ آ  سکی ... کیونکہ  واقعہ  پرانا  ہو  چلا  تھا  خبر  آ  کے  گذر  گئی تھی ....مجھے ایک واقف حال  نے برسوں  بعد  بتایا  کہ  وہ  باپ  پاگل ہو گیا  تھا ....
لیکن  اس  کے  باوجود میں کہوں گا   کہ بسنت منانا بہت ضروری ہے .. وہ اس لیے  کہ :
ہمیں  اپنی  ثقافت  بھی تو  بچانی ہے جو  ساری کی ساری  اس موئی  بسنت میں سمٹ  آئی  ہے ..اور بسنت  کی  رات  کوٹھوں  پر ہونے والے مجروں میں اس کا اظہار ہوتا ہے ..جب  جام الٹائے جاتے ہیں شراب لنڈھائی جاتی ہے  - جی ہاں یہی تو ہماری ثقافت ہے اگر کسی کو  مجھ سے اختلاف ہے  تو  مجھے  بتائے  کیا یہ چار کام اب بسنت کا مستقل حصہ نہیں ...؟ -
کیا   طوائفوں  اور  گرل فرینڈز    کے  بنا بسنت کا تصور ہے ؟
 کیا شراب کے بغیر اسے ادھورا تصور نہیں کیا جاتا ؟
کیا کان  پھاڑنے  والے  انڈین  اور  لچر پنجابی گانوں  کے بغیر یہ پھیکی نہیں جانی جاتی ؟
کیا لاہور  کے ہوٹل اس روز  زنا کے اڈوں  اور طوائف کے کوٹھوں میں نہیں بدل جاتے ؟-
...اور  جو "عقل  کے کورے " اور دانش کے "بزرجمہر " اس کے لیے تاریخ  سے  ڈھونڈھ  ڈھونڈھ کے  "دلائل  " لاتے ہیں کہ اس کا ہندو  ثقافت سے کوئی تعلق نہیں ..بھلے نہ ہو یہ ہندوں  کا  چھوڑ مسلمانوں کا ہی تہوار رہا ہو  لیکن  کیا اس قتل و غارت گری کو ثقافت کہا جا سکتا ہے ؟ ...
  میں ان سے بھی ایک سوال پوچھتا ہوں جو مغرب کے زرخرید  "دانش ور " ہیں کہ مغرب میں شخصی آزادی کا یہ تصور ہے کہ اگر کوئی اپنے بیڈ روم میں بھی اونچی آواز  میں  میوزک   لگائے  اور ہمسایہ  بے آرام ہو تو وہ پولیس  کو بلا سکتا ہے لیکن اس بسنت  میں چھتوں  پر  اس قدر بلند آواز میں میوزک لگایا جاتا ہے ..کیا یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ؟ -
ایک جھوٹ  جو مسلسل بولا جاتا ہے کہ جب سے دھاتی  ڈور آئی تب سے یہ ہلاکتیں  شروع  ہوئیں ... میرا سوال ہے کہ جو چھت سے گر گے مرتے ہیں ، جو پتنگ لوٹتے گاڑیوں کی زد میں آ کی جان ہارتے ہیں اور جو شراب کے نشے میں کی جانے والی ہوائی فائرنگ کی اندھی گولیوں  سے مارے جاتے ہیں وہ کیا ہووے ؟--
آپ تیس برس، چالیس برس پرانے اخبارات اٹھا کے دیکھ لیجئے  - بسنت سے اگلے روز سے اخبارات ان خبروں سے بھرے ہووے ہوں گے  .. اصل میں ہوا یوں کہ قتل و غارت گری حد سے بڑھ گئی ، دھاتی ڈور نے اس میں نمایاں اضافہ کر دیا تو "جرم " کو ثقافت کے چھپانا ممکن نہ رہا ..اور ظاہر ہے کثافت  کب تک ثقافت کے پردے میں چھپائی  جا سکتی ہے ؟-
اس کے حامیوں  کا  ایک ہی مقصد ہے کہ اس معاشرے  میں بے حیائی  کیسے پھیلانی ہے  ، اس کی اخلاقی اقدار کو کیسے تباہ کرنا ہے ؟ سو ان کی حمایت  بھی اسی ایجنڈے کے پیش نظر ہے .......یہ طبقہ اتنا ظالم ہے کہ اپنی تفریح کے لیے  دوسروں  کے گلے کٹنے پر بھی ان کے دلائل یہ ہوتے ہیں ..ایک بسنتی وزیر کا  بیان اخبارات میں چھپا تھا کہ
"اس سے کہیں زیادہ ہلاکتیں ، ڈکیتیوں ، ٹریفک حادثات اور خود کشیوں میں ہوتی ہیں ،جب ا س پر کوئی نہیں بولتا۔" (نوائے وقت)
یہ  ہیں خیالات  اور سطحی پن  ہمارے  ان "انسان دوست  ثقافتیوں " کا ......

...ابوبکر قدوسی

Friday 10 February 2017

بادشاہ اور گدھا



ایک شخص بازار میں صدا لگا رہا تھا۔ گدھا لے لو۔  گدھا لے لو۔

گدھا انتہائی کمزور اور لاغر قسم کا تھا.
۔
وہاں سے بادشاہ کا اپنے وزیر کے ساتھ گزر ہوا،

بادشاہ وزیر کے ساتھ گدھے کے پاس آیا اور پوچھا کتنے کا بیچ رہے ہو؟

اس نے کہا عالی جاہ! پچاس ہزار کا۔

بادشاہ حیران ہوتے ہوئے، اتنا مہنگا گدھا؟ ایسی کیا خاصیت ہے اس میں؟

وہ کہنے لگا *حضور جو اس پر بیٹھتا ہے اسے مکہ مدینہ دکھائی دینے لگتا ہے*۔

بادشاہ کو یقین نہ آیا اور کہنے لگا اگر تمہاری بات سچ ہوئی تو ہم ایک لاکھ کا خرید لیں گے لیکن اگر جھوٹ ہوئی تو تمہارا سر قلم کر دیا جائے گا

ساتھ ہی وزیر کو کہا کے اس پر بیٹھو اور بتاؤ کیا دکھتا ہے؟

وزیر بیٹھنے لگا تو گدھے والے نے کہا، *جناب مکہ مدینہ کسی گنہگار انسان کو دکھائی نہیں دیتا*۔

وزیر: ہم گنہگار نہیں، ہٹو سامنے سے۔ اور بیٹھ گیا لیکن کچھ دکھائی نہ دیا۔
اب سوچنے لگا کے اگر سچ کہہ دیا تو بہت بدنامی ہوگی،

اچانک چلایا *سبحان اللہ، ما شاء اللہ، الحمدللہ کیا نظارہ ہے مکہ، مدینہ کا*۔

۔بادشاہ نے تجسس میں کہا ہٹو جلدی ہمیں بھی دیکھنے دو اور خود گدھے پر بیٹھ گیا، دکھائی تو اسے بھی کچھ نہ دیا لیکن سلطانی جمہور کی شان کو مدنظر رکھتے ہوئے آنکھوں میں آنسو لے آیا اور کہنے لگا
*واہ میرے مولا  واہ، واہ سبحان تیری قدرت، کیا کراماتی گدھا ہے*

کیا مقدس جانور ہے، میرا وزیر مجھ جتنا نیک نہیں تھا اسے صرف مکہ مدینہ دکھائی دیا مجھے تو ساتھ ساتھ جنت بھی دکھائی دے رہی ہے۔

اس کے اترتے ہی عوام ٹوٹ پڑی کوئی گدھے کو چھونے کی کوشش کرنے لگا، کوئی چومنے کی، کوئی اس کے بال کاٹ کر تبرک کے طور پر رکهنے لگا وغیرہ وغیرہ.

*یہی حال کچھ ہمارے سماج میں مذہب کے سوداگروں کا ہے جنهوں نے دینی اصطلاحات اور دین کے نام پر فریب دینے کا بیڑا اٹھا رکها ہے اور سادہ لوح عوام بھی اندھے کانے بن کر پیچھے چل پڑتے ہیں.
اپنی عیاشیوں اور جھوٹی شان و شوکت کے لیئے بندہ کیسے کیسے جھوٹ بولتا ھے
زرا سوچیئے
سوچنا جرم نہیں....

سنگ و آہن کے بھی سینوں میں شرر جاگ اٹھے....!




ویلنٹائن ڈے نامی خرافات کے عنوان سے ایک نیا تہذیبی زہر قوم کو شوگر کوٹ کر کے پلانے کی تیاریاں ایک مرتبہ پھر عروج  پر ہیں۔ ٹاک شوز کے جبرا چرے بکواس گو اپنا خبثِ باطن انڈیلنے کو پھن پھیلائے بلوں سے نکل کر ٹاک شوز سجانے کو ہیں۔ سو لازم تھا کہ اہلِ ایمان کے سامنے دردِ دل رکھا جائے اور اپنے تئیں بے حیائی کے اس سیلاب کے سامنے بند باندھنے کی اپنی سی کوشش اور پاکیزہ تہذیب کا حقیقی نہج اپنی نوجوان قوم کو بتلایا جائے
مصور پاکستان علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ نے شرق و غرب کے علوم میں غوطے لگا کر جو، جواہر موتی ہمارے سامنے رکھے تھے۔ انہی میں جاوید نامہ میں ابدالی کی زبان سے اس ”ترقی“ کے جو پردے چاک کئے ہیں اس میں یہ بھی کہا: ”یورپ کے ذہنی غلاموں نے اپنے چھچھورے پن اور سطحیت پسندی کی وجہ سے بے حد قیمتی چیز یعنی زندگی کو لہو و لعب کے لئے وقف کر دیا اور یہ اس لئے ہوا کہ علم حاصل کرنا مشکل کام تھا جو وہ اپنی کم ہمتی اور سہل پسندی کی وجہ سے اختیار نہ کر سکے (ترجمہ فارسی اشعار)
یہی زمانہ  حاضر کی کائنات ہے کیا
دماغ روشن و دل تیرہ و نگاہ بے باک
 باپ کے نام سے ناواقف مجہول النسب محکومی و تقلید سے چندھیائی ہوئی ہوس پرست نگاہیں نوجوان نسل کو ٰآوارگی کی راہوں پر دھکیل کر۔۔۔۔۔ نجانے بجلی گیس بے روز گاری کی ماری قوم کی مزید بربادی پر کیونکہ کمر بستہ ہیں۔ امریکی ڈالروں کے عطا کردہ ایجنڈے تعلیمی اداروں، این جی اوز کے ذریعے سب سے زیادہ ثقافت کے نام پر رنگ لا رہے ہیں۔ ملک اور نوجوان نسل کو بچانے کیلئے سنجیدہ اور فہیم طبقے کو بھرپور کوشش کرنی ہو گی کہ اخلاق باختگی اور فکری انارکی کے اس طوفان سے قوم کے قیمتی ترین اثاثے( نوجوان نسل) کو بچایا جا سکے۔
 کچھ عاقبت نا اندیشوں کی جانب سے اسلام کے تمام بنیادی عقائد پر نظرِ ثانی کی مہم میں اب حیا کا جنازہ نکالنا بھی واجب ٹھہرا ہے۔ ڈینگی، ایبولا اور اب زیکا وائرس کے بعد تہذیبی یلغار کا وائرس اب بلٹ ٹرین کی سپیڈ سے ارضِ وطن کے گلی کوچوں میں پھیلایا جا رہا ہے۔ یہ وائرس رگوں میں سرایت کر کے امت مسلمہ کی نوجوان نسل کو فکری انتشار، مکمل کنفیوشن، ہوش گم حواس گم کیفیت میں مبتلاء کیے ہوۓ ہے۔ ہر لچر لفنگی چیز کو کلچر کا نام لے کر مسلط کر دو۔۔۔۔۔! گلوبل "جنگل" اور مشترکہ کلچر کے دعوے داروں نے کبھی ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے تہوار عیدین مناتے ہوۓ کسی نان مسلم کو یوں دیکھا ہو تو بتئیے گا۔ کبھی کسی نے عید الضحی کے موقع پر وائٹ ہاؤس میں بکرے بندھے دیکھے ہوں تو مطلع فرمائیے گا
 بے حیائی سے مزین لنڈا بازار سے امپورٹد ویلنٹائنی وائرس اپنا زہر اچھا خاصا پھیلا چکا ہے۔ یہ وائرس لال لباس، لال گلاب لیے تھرکتا، مٹکتا بہکاتا ویلنٹائنی کی قلب و روح کا Murder کرتا ہے، پھر "کہتے ہیں جسکو عشق خلل ہے دماغ کا" کے مصداق دماغ کی چولٰیں ہلا ڈالتا ہے۔ اب سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری بندہ پہلے ویلنٹائنی اور پھر سب کچھ ہوتا ہے۔ غضب خدا کا کہ اسلام کو تو مکمل یتیم کرنے کی کوششیں ہوں، ہر نیکی جرم ٹھہرائی جانے لگے، تبلیغی جماعت جیسی بے ضرر جماعت پر شریف ویلنٹائنی پابندیاں عائد کریں، مگر سکولوں کے مخلوط ماحول میں معصوم بچوں کو عشق عاشقی کے اسباق پڑھاۓ جائیں۔ نا دیدہ ہاتھ اس عظیم الشان مملکت سے عالی شان دین، اقدار و اطوار چھیننے کے درپے ہوں اور دینی حلقے خس و خاشاک بنے رہ جائیں۔ مغرب کا اخلاقی تعفن تو اس قدر ہے کہ سات سمندر پار کی خبریں سن کر ایک سلیم الفطرت انسان کی روح سڑ جاۓ۔ دیوانگی کی سطحوں کو چھوتی ہوئی تہزیب جسے خوبصورت ناموں میں ملفوف کر کے ہمارے بچوں کو اغواۓ شیطانی میں دیا جا رہا ہے اور ہم خاموشی سے اسٹیٹس اپلوڈ کر کے فرض پورا کرنے کے چکروں میں لگے ہوۓ ہیں۔ اگرچہ یہ بھی ضروری ہے مگر اسی پر اکتفا کر بیٹھنا کہاں کی ہوشمندی ہے۔
 یہ تہذیبوں کی جنگ اسفل السافلین ڈارونیوں اور اشرف المخلوقت آدمیوں کے درمیان ہے، اور ہم میں سے ہر ذی شعور فرد کو اپنا فرض اخلاقی و ایمانی بنیادوں پر ادا کر کے اشرف المخلوقات ہونے کا ثبوت دینا ہو گا۔ غرق ہوتے فرعون کے لشکر کا اس لئے ساتھ غرق ہونا مقدر ہو چکا۔ ہمیں اپنی نسلوں کو اسکے ساتھ غرقاب ہونے سے بچانا ہے۔ رقص و سرود، چنگ و رباب ، ہوس پرستی، بے راہ روی مغربی تہذیب کے اسباب زوال میں سے ایک بہت بڑا سبب ہے۔ لنڈے کے اس ایڈز زدہ مال سے اپنے گھروں، خاندانوں، معاشرت تعلیمی اداروں سب ہی کو بچانا ہے اور اپنی پاکیزہ کوثر و تسنیم سے دھلی قرآنی تہذیب کی طرف لوٹنا ہے۔
آج بھی اس امت کو جس کیلئے… ’عقل و دل و نگاہ کا مرشدِ اولین ہے عشق‘ کا سبق اتارا گیا تھا کی اشد ضرورت ہے ، ذرا (ویلنٹائن ڈے کے پسِ منظر میں) عشقِ حقیقی کی جولانیاں اور سفلی عشق کی پستی پر نگاہ تو دوڑایئے۔ کہاں معیار یہ کہ ’والذین امنوا اشد حباً للہ‘‘ ایمان والے اللہ سے شدید محبت رکھتے ہیں۔ غلامی محمد ﷺ کی حقیقت یاد دلانے کو بار بار اس آیت کی تکرار کہ (اے نبیؐ) کہو کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کریگا، (اٰل عمران 31) اور پوری تاریخ میں موجود عشق کی حسین داستانیں سمیٹ کر اشعار میں پرو کر رول ماڈل دے ڈالنے والا اقبالؒ …؎
صدقِ خلیلؑ بھی ہے عشق صبرِحسینؓ بھی ہے عشق
معرکۂ وجود میں بدر و حنین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بھی ہے عشق ۔
گناہوں کے اقرار، پھر ندامت اور توبة النصوح ہی سے عنداللہ درگزر اور معافی تلافی کے دروازے کھلتے ہیں۔ تکبر کی دنیا سے نکل کر دیکھئے اللہ کے آگے جھکنے والوں نے کیسی تواریخ رقم کیں۔ ۔بس عشق کی ایک جست چاہئے لیکن یومِ اوباشی،فحاشی والا عشق نہیں بلکہ …؎
قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کردے
دہر میں اسم محمدؐ سے اجالا کردے
بس اس حقیقی عشق کی ایک جست درکار ہے...!
اہلِ ایمان یاد رکھیں یہ میراث، یہ گلستانِ محمد ﷺ کے مہکتے پھولوں اور آسمانِ حیا کے درخشندہ ستاروں کی مبارک زندگیاں، اور ان زندگیوں کو اپنا نقشِ حیات بنانے والے مبارک سلف صالحین کی محنت اور فکر سے یہ اجلی تہذیب کی میراث،،،، جس کا ایک ایک گوشہ زندہ و جاوید ہم تک بحفاظت پہنچا ہے۔۔۔ اس ایک ایک گوشے کو عمل کے سانچے میں ڈھالنا، اپنی ذات سے پورے معاشرے تک تبدیلی کی کوشش کا بارِ گراں اٹھانا ہمارے ذمے ہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
ہم تھوڑے ہیں یا زیادہ بہرطور مقابلہ ہمیں ہی کرنا ہے۔۔۔۔!!
خدارا جاگیے۔۔۔۔۔!
سنگ و آہن کے بھی سینوں میں شرر جاگ اٹھے
چشمِ انساں ہے کہ محروم بصیرت ہے ابھی۔۔۔۔۔۔۔!
.........................
تحریر : منیب اعوان

Mayday



دسمبر میں پی آئی اے کے جہاز کا حادثہ ہوا۔۔۔
پائلٹ نے جہاز تباہ ہونے سے پہلے کنٹرول سٹیشن کو Mayday مے ڈے کی کال بھیجی۔۔۔
دنیا میں جب بھی جہاز میں کوئی سنجیدہ مسئلہ ہوتا ہے تو پائلٹ Mayday mayday mayday پکارتا ہے۔۔۔
یہ فرنچ زبان کے لفظ m'aidez سے اخذ کردہ لفظ ہے جس کا مطلب ہے میری مدد کرو Help Me۔۔۔
جب یہ کال کنٹرول سٹیشن پر موصول ہوتی ہے تو فوری طور پر اس جہاز کے معاملے کو فوقیت دی جاتی ہے کہ ایمرجنسی ہے۔۔۔
یہ تو مے ڈے یا Mayday کا تعارف ہوگیا لیکن اس تحریرکا اصل منشا کچھ اور ہے۔۔۔
پائلٹ مکمل پیشہ ورانہ تربیت کے بعد پائلٹ کے منصب پر فائز ہوتا ہے اور اس طرح کے ہنگامی اقدامات بھی اسے تربیت میں سکھائے جاتے ہیں۔۔۔
اب ایک لمحے کو سوچیے کہ آپ پائلٹ ہیں، جہاز بہت بلندی پر ہے اور اس میں سنجیدہ نوعیت کی خرابی پیدا ہوچکی ہے۔۔۔
آپ بطور پائلٹ یہ جانتے ہیں کہ جہاز تباہ یوجائے گا۔۔۔
ان مختصر لمحات میں بھی آپ Mayday کی کال بھیجیں گے اور ہر ممکنہ کوشش کریں گے کہ جہاز آبادی کے اوپر نہ گرے۔۔۔
پوری دنیا میں یہی طرز رائج ہے اور یقیناً پائلٹ کے مضبوط اعصاب کی نشانی ہے۔۔۔
اعصاب کی یہ مضبوطی اسے اس شعبے کا انتخاب اور پھر اس تربیت میں سے گزرنا عطا کرتا ہے۔۔۔
وہ ذہنی طور پر تیار ہوتا ہے کہ اس کی پیشہ ورانہ زندگی میں یہ حادثۃ کبھی بھی پیش آسکتا ہے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب اس کو وسیع تناظر پر اپنے اوپر لاگو کیجیے۔۔۔
یہ دنیا کی زندگی مختصر ہے اور اس میں کسی بھی لمحے ہماری موت کا بلاوا آسکتا ہے۔۔۔
اگرہم ذہنی طور پر تیار ہیں اور زندگی میں وہ طرز اختیار کیا ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے مقرر کیا ہے تو یقیناً ہمارے اعصاب بھی اس نازک لمحے میں جمے رہیں گے اور قائم رہٰیں گے۔۔۔
اور ہم آسانی سے اللہ کی وحدانیت اور نبی کریم ﷺ کی گواہی دے کر ان الفاظ کی فضیلت حاصل کرسکیں گے۔۔۔
مسلمان تو ہم پیدائشی ہیں، نبی کریم ﷺ کا طرزِ زندگی ہم نے ہمت اور محنت سے اپنانا ہے اور پھر اللہ کے فضل ورحمت سے ہمیں یہ الفاظ بھی ملیں گے، موت ہمارے لیے تحٖفہ بھی ہوگی، منکر نکیر کے جواب بھی بآسانی دیں گے۔۔۔
بس نبی کریم ﷺ کے طرزِ زندگی پر ڈٹ جائیے، معذرت کے ساتھ نہیں بلکہ خدا اعتمادی کے ساتھ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آفاق احمد

دختر) میری بیٹی)




               
      
مجھے اپنی وہ ماں جیسی خاتون ابھی تک یاد ہے جس کے سات بچے تھے مگر ہر وقت بیمار رہتی تھی۔ اس کے شوہر نے ایک دن بندوق کے بٹ سے اس کے سر پر اس زور سے مارا کہ وہ اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھی۔ کچھ دن بعد وہ پاگل ہوگئی اور شوہر نے دوسری شادی کرلی. مجھے اس کے زنجیر میں جگڑے پیر ابھی بھی یاد ہیں اور جانوروں کے باڑے میں اس کا جانوروں کے ساتھ رکھا جانا بھی۔  جب ہم کھیلنے اس کے گھر جاتے تو بچے اسے پتھر مارتے اور وہ جواباً خود کو کاٹنے لگتی. ایک دن میرے ہاتھ میں گھی ملی روٹی دیکھ کر وہ اس برے طریقے سے رو پڑی کہ میں بھول گیا کہ وہ ایک پاگل ہے. میں نے اس سے پوچھا کہ روٹی کھاؤ گی؟  کہنے لگی تم واقعی دوگے؟ میں نے وہ روٹی اسے پکڑا دی. کہنے لگی بیٹا تین دن سے بھوکی ہوں اور اس کے گالوں پر آنسو بہنے لگے۔ مجھے جھٹکا لگا کہ یہ کیسی پاگل ہے جو مجھے بیٹا بھی کہہ رہی ہے اور آنسوں سے رو رہی ہیں. ماں نے بتایا کہ وٹے سٹے کی شادی ہے. اس پاگل کے بھائی نے اس کے شوہر کی بہن کیساتھ ایسا ہی کیا تھا لہذا وہ بدلہ لے رہا ہے اور بدلہ پشتون کی شان ہے. یہ کہہ کر ماں بھی بلک بلک کر رونے لگی.

میں اپنی ایک رشتہ دار خاتون کو کیسے بھول سکتا ہوں جو پیدا تو اللہ کی مرضی سے ہوئی مگر مری ماں باپ کی پسند سے. کراچی میں پلی بڑھی اور جامعہ کراچی سے ماسٹر کرنے کے بعد ماں باپ نے روایت کے مطابق اس کی رشتے کی بات گاؤں میں ایک رشتہ دار سے کی جو گاؤں میں لکڑیاں بیچتا تھا. خاتون بھی اپنے باپ کی عزت کی خاطر راضی ہوگئی اور گاؤں چلی گئی. ایک دن اپنے ہونیوالے شوہر سے پڑھنے واسطے کچھ کتب منگوا بیٹھی تو اس کے منگتیر نے اسے پانچویں جماعت کی کتابیں پکڑا دیں.
اگلی صبح اپنے باپ کا ریووالور کنپٹی پر رکھ کر ماں سے کہا کہ اس نے یہ شادی نہیں کرنی. ماں نے مذاق سمجھ کر اسے جواب دیا اس سے اچھا ہے خود کو گولی ماردو......... اور اس نے حقیقتاً مار کر بھی اور مر کر بھی دیکھا دیا.


میں نیا نیا جوان تھا غالباً 1995 کی بات ہے. میرے رشتہ داروں میں دشمنی تھی. دس بارہ بندے مرنے کے بعد دونوں فریقین کواحساس ہوا  کہ باپ دادا کی دشمنی جو ایک بیر کی درخت پر شروع ہوئی تھی اب بند ہونی چاہیئے. صلح صفائی ہوئی، جرگے بلائے گئے، سفید شلوار قمیض واسکٹ اور لمبے شملوں والے باریش معززین  نے کلام پاک پر ہاتھ رکھ کر صلح کی۔  اس خوشی میں ہوائی فائرنگ ہوئی اور بیل ذبح کئے گئے؛ اور دو بچیوں کو اس دشمنی کی بھینٹ چڑھایا گیا.

ایک بچی کی عمر سات سال تھی۔ جب اس کو پتہ چلا کہ اس کا رشتہ اس سے تین گنا بڑے عمر کے بندے کو دیدیا گیا ہے تو وہ بچی آگے بڑھ کر اپنے ہونے والے شوہر سے کہنے لگی "ماما جی مجھے ٹافیاں دلاو گے نا؟ دوسری جو سترہ سال کی تھی اس نے بغاوت کی اور پورا گاؤں کہنے لگا کہ اس لڑکی کا کسی سے چکر چل رہا ہوگا ورنہ کون جرگے کے خلاف جا سکتا ہے۔ پھر اچانک سانپ کے کاٹے سے وہ مر گئی۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ اسکی سگی ماں نے اسے اپنے ہاتھوں سے زہر دے دیا کہ اس نے ہماری ناک کاٹ دی ہے.
اس دن اپنی ماں کے گود میں سر رکھ کر میں بہت رویا تھا اور میری رشتہ دار خواتین مجھے زنخا کہہ کر ہنس پڑتیں. شاید تب ہی سے گاؤں کو طلاق دے کر اج تک خود سے فرار حاصل کررہا ہوں.

امریکہ میں مقیم ایک انویسٹیگٹیو جرنلسٹ دوست نے مجھے وٹس ایپ پر ایک لنک بھیجا۔ لنک اوپن کرکے دیکھا تو پتہ چلا کہ کسی پاکستانی فلم "دختر" کا ٹریلر تھا. وقت گزاری کیلئے لنک اوپن کیا تو جیسے کسی نے مجھے جکڑ لیا. مجھے اپنے چہرے پر جیسے تھپڑ لگتے محسوس ہوے۔ مجھے ایسا لگا جیسے میرے کچھ مضامین میرے "خٹک نامہ" کے مسودے سے چرائے گئے ہیں۔ مگر جب فلم کی ریلیز کی تاریخ دیکھی تو ایسا لگا جیسے میں نے اس فلم کا سکرپٹ چرایا ہوا ہے. عافیہ نھتیانی، جو اس فلم کی ڈائریکٹر اور مصنفہ ہے، نے ہماری قبائلی پشتون روایات کو وہ تھپڑ مارے ہیں کہ اس فلم کو یا تو پشتون روایت پسندوں نے دیکھا نہیں ہے یا اگر دیکھا ہے تو میری طرح شرمندگی سے منہ چھپا کر خود سے پردہ کئے بیٹھے ہیں.

فلم دختر  ایک دس سالہ بچی اور اسکی ماں کی کہانی کے گرد گھومتی ہے. بچی کا باپ نسلوں پرانی دشمنی سے اکتایا ہوا اپنی دس سالہ بیٹی کا نکاح ایک ساٹھ سالہ قبائلی سردار کے ساتھ کرانے پر راضی ہوجاتا ہے. بچی کی ماں اس کے خلاف بغاوت کرتی ہے اور بیٹی سمیت گھر سے فرار ہوجاتی ہے. ایک پنجابی ٹرک ڈرائیور ان ماں بیٹی کیلئے ڈھال بن جاتا ہے.

میں عافیہ سے ملنا چاہتا ہوں۔ اس سے کہنا چاہتا ہوں کہ میری بہن تم کیسے اتنی بہادر ہو کہ پشتونوں کے لمبے اور اونچے شملے کے پیچھے چھپی فرسودہ روایات پر ایک عورت ہوکر وار کیا اور میں مرد ہو کر بھی اج تک خود سے چھپتا پھر رہا ہوں.

لوگ کہتے ہیں وقت بدلا ہے۔مگر وقت شاید اب بھی نہیں بدلا۔ آج بھی مردان اور سوات کی نوخیز بچیاں خریدی جارہی ہیں اور دبئی کے مہنگے کلبوں میں میرے "پشتون ولی"  کے دستاروں کے تاروں کو تار تار کررہی ہیں. ..............


کیا واقعی میرے اندر غیرت آ گئی ہے یا مجھے ایک جذباتی دورہ پڑ گیا ہے۔ کیوں مجھے اپنی وہ سب بیٹیاں، مائیں اور بہنیں یاد آ رہی ہیں جنکو میں فرسودہ روایات کے نام پر بلی چڑھتے ہوے دیکھتا رھا۔ ارے آپ گھبرائیے نہیں، انشاءاللہ پانچ منٹ میں ٹھیک ہو کر آپ کو پھر سے کوئی شلوار کہانی  سناتا ہوں،  پھر ہنساتا ہوں. کچھ دیر بس رو لوں، شاید کچھ کو رلا لوں۔ کچھ دیر رلانے کیلئے معافی مانگتا ہوں۔
Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...