Friday 10 February 2017

سنگ و آہن کے بھی سینوں میں شرر جاگ اٹھے....!




ویلنٹائن ڈے نامی خرافات کے عنوان سے ایک نیا تہذیبی زہر قوم کو شوگر کوٹ کر کے پلانے کی تیاریاں ایک مرتبہ پھر عروج  پر ہیں۔ ٹاک شوز کے جبرا چرے بکواس گو اپنا خبثِ باطن انڈیلنے کو پھن پھیلائے بلوں سے نکل کر ٹاک شوز سجانے کو ہیں۔ سو لازم تھا کہ اہلِ ایمان کے سامنے دردِ دل رکھا جائے اور اپنے تئیں بے حیائی کے اس سیلاب کے سامنے بند باندھنے کی اپنی سی کوشش اور پاکیزہ تہذیب کا حقیقی نہج اپنی نوجوان قوم کو بتلایا جائے
مصور پاکستان علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ نے شرق و غرب کے علوم میں غوطے لگا کر جو، جواہر موتی ہمارے سامنے رکھے تھے۔ انہی میں جاوید نامہ میں ابدالی کی زبان سے اس ”ترقی“ کے جو پردے چاک کئے ہیں اس میں یہ بھی کہا: ”یورپ کے ذہنی غلاموں نے اپنے چھچھورے پن اور سطحیت پسندی کی وجہ سے بے حد قیمتی چیز یعنی زندگی کو لہو و لعب کے لئے وقف کر دیا اور یہ اس لئے ہوا کہ علم حاصل کرنا مشکل کام تھا جو وہ اپنی کم ہمتی اور سہل پسندی کی وجہ سے اختیار نہ کر سکے (ترجمہ فارسی اشعار)
یہی زمانہ  حاضر کی کائنات ہے کیا
دماغ روشن و دل تیرہ و نگاہ بے باک
 باپ کے نام سے ناواقف مجہول النسب محکومی و تقلید سے چندھیائی ہوئی ہوس پرست نگاہیں نوجوان نسل کو ٰآوارگی کی راہوں پر دھکیل کر۔۔۔۔۔ نجانے بجلی گیس بے روز گاری کی ماری قوم کی مزید بربادی پر کیونکہ کمر بستہ ہیں۔ امریکی ڈالروں کے عطا کردہ ایجنڈے تعلیمی اداروں، این جی اوز کے ذریعے سب سے زیادہ ثقافت کے نام پر رنگ لا رہے ہیں۔ ملک اور نوجوان نسل کو بچانے کیلئے سنجیدہ اور فہیم طبقے کو بھرپور کوشش کرنی ہو گی کہ اخلاق باختگی اور فکری انارکی کے اس طوفان سے قوم کے قیمتی ترین اثاثے( نوجوان نسل) کو بچایا جا سکے۔
 کچھ عاقبت نا اندیشوں کی جانب سے اسلام کے تمام بنیادی عقائد پر نظرِ ثانی کی مہم میں اب حیا کا جنازہ نکالنا بھی واجب ٹھہرا ہے۔ ڈینگی، ایبولا اور اب زیکا وائرس کے بعد تہذیبی یلغار کا وائرس اب بلٹ ٹرین کی سپیڈ سے ارضِ وطن کے گلی کوچوں میں پھیلایا جا رہا ہے۔ یہ وائرس رگوں میں سرایت کر کے امت مسلمہ کی نوجوان نسل کو فکری انتشار، مکمل کنفیوشن، ہوش گم حواس گم کیفیت میں مبتلاء کیے ہوۓ ہے۔ ہر لچر لفنگی چیز کو کلچر کا نام لے کر مسلط کر دو۔۔۔۔۔! گلوبل "جنگل" اور مشترکہ کلچر کے دعوے داروں نے کبھی ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے تہوار عیدین مناتے ہوۓ کسی نان مسلم کو یوں دیکھا ہو تو بتئیے گا۔ کبھی کسی نے عید الضحی کے موقع پر وائٹ ہاؤس میں بکرے بندھے دیکھے ہوں تو مطلع فرمائیے گا
 بے حیائی سے مزین لنڈا بازار سے امپورٹد ویلنٹائنی وائرس اپنا زہر اچھا خاصا پھیلا چکا ہے۔ یہ وائرس لال لباس، لال گلاب لیے تھرکتا، مٹکتا بہکاتا ویلنٹائنی کی قلب و روح کا Murder کرتا ہے، پھر "کہتے ہیں جسکو عشق خلل ہے دماغ کا" کے مصداق دماغ کی چولٰیں ہلا ڈالتا ہے۔ اب سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری بندہ پہلے ویلنٹائنی اور پھر سب کچھ ہوتا ہے۔ غضب خدا کا کہ اسلام کو تو مکمل یتیم کرنے کی کوششیں ہوں، ہر نیکی جرم ٹھہرائی جانے لگے، تبلیغی جماعت جیسی بے ضرر جماعت پر شریف ویلنٹائنی پابندیاں عائد کریں، مگر سکولوں کے مخلوط ماحول میں معصوم بچوں کو عشق عاشقی کے اسباق پڑھاۓ جائیں۔ نا دیدہ ہاتھ اس عظیم الشان مملکت سے عالی شان دین، اقدار و اطوار چھیننے کے درپے ہوں اور دینی حلقے خس و خاشاک بنے رہ جائیں۔ مغرب کا اخلاقی تعفن تو اس قدر ہے کہ سات سمندر پار کی خبریں سن کر ایک سلیم الفطرت انسان کی روح سڑ جاۓ۔ دیوانگی کی سطحوں کو چھوتی ہوئی تہزیب جسے خوبصورت ناموں میں ملفوف کر کے ہمارے بچوں کو اغواۓ شیطانی میں دیا جا رہا ہے اور ہم خاموشی سے اسٹیٹس اپلوڈ کر کے فرض پورا کرنے کے چکروں میں لگے ہوۓ ہیں۔ اگرچہ یہ بھی ضروری ہے مگر اسی پر اکتفا کر بیٹھنا کہاں کی ہوشمندی ہے۔
 یہ تہذیبوں کی جنگ اسفل السافلین ڈارونیوں اور اشرف المخلوقت آدمیوں کے درمیان ہے، اور ہم میں سے ہر ذی شعور فرد کو اپنا فرض اخلاقی و ایمانی بنیادوں پر ادا کر کے اشرف المخلوقات ہونے کا ثبوت دینا ہو گا۔ غرق ہوتے فرعون کے لشکر کا اس لئے ساتھ غرق ہونا مقدر ہو چکا۔ ہمیں اپنی نسلوں کو اسکے ساتھ غرقاب ہونے سے بچانا ہے۔ رقص و سرود، چنگ و رباب ، ہوس پرستی، بے راہ روی مغربی تہذیب کے اسباب زوال میں سے ایک بہت بڑا سبب ہے۔ لنڈے کے اس ایڈز زدہ مال سے اپنے گھروں، خاندانوں، معاشرت تعلیمی اداروں سب ہی کو بچانا ہے اور اپنی پاکیزہ کوثر و تسنیم سے دھلی قرآنی تہذیب کی طرف لوٹنا ہے۔
آج بھی اس امت کو جس کیلئے… ’عقل و دل و نگاہ کا مرشدِ اولین ہے عشق‘ کا سبق اتارا گیا تھا کی اشد ضرورت ہے ، ذرا (ویلنٹائن ڈے کے پسِ منظر میں) عشقِ حقیقی کی جولانیاں اور سفلی عشق کی پستی پر نگاہ تو دوڑایئے۔ کہاں معیار یہ کہ ’والذین امنوا اشد حباً للہ‘‘ ایمان والے اللہ سے شدید محبت رکھتے ہیں۔ غلامی محمد ﷺ کی حقیقت یاد دلانے کو بار بار اس آیت کی تکرار کہ (اے نبیؐ) کہو کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کریگا، (اٰل عمران 31) اور پوری تاریخ میں موجود عشق کی حسین داستانیں سمیٹ کر اشعار میں پرو کر رول ماڈل دے ڈالنے والا اقبالؒ …؎
صدقِ خلیلؑ بھی ہے عشق صبرِحسینؓ بھی ہے عشق
معرکۂ وجود میں بدر و حنین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بھی ہے عشق ۔
گناہوں کے اقرار، پھر ندامت اور توبة النصوح ہی سے عنداللہ درگزر اور معافی تلافی کے دروازے کھلتے ہیں۔ تکبر کی دنیا سے نکل کر دیکھئے اللہ کے آگے جھکنے والوں نے کیسی تواریخ رقم کیں۔ ۔بس عشق کی ایک جست چاہئے لیکن یومِ اوباشی،فحاشی والا عشق نہیں بلکہ …؎
قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کردے
دہر میں اسم محمدؐ سے اجالا کردے
بس اس حقیقی عشق کی ایک جست درکار ہے...!
اہلِ ایمان یاد رکھیں یہ میراث، یہ گلستانِ محمد ﷺ کے مہکتے پھولوں اور آسمانِ حیا کے درخشندہ ستاروں کی مبارک زندگیاں، اور ان زندگیوں کو اپنا نقشِ حیات بنانے والے مبارک سلف صالحین کی محنت اور فکر سے یہ اجلی تہذیب کی میراث،،،، جس کا ایک ایک گوشہ زندہ و جاوید ہم تک بحفاظت پہنچا ہے۔۔۔ اس ایک ایک گوشے کو عمل کے سانچے میں ڈھالنا، اپنی ذات سے پورے معاشرے تک تبدیلی کی کوشش کا بارِ گراں اٹھانا ہمارے ذمے ہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
ہم تھوڑے ہیں یا زیادہ بہرطور مقابلہ ہمیں ہی کرنا ہے۔۔۔۔!!
خدارا جاگیے۔۔۔۔۔!
سنگ و آہن کے بھی سینوں میں شرر جاگ اٹھے
چشمِ انساں ہے کہ محروم بصیرت ہے ابھی۔۔۔۔۔۔۔!
.........................
تحریر : منیب اعوان

No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...